پنجاب ایگریکلچر کانفرنس
Department of Agriculture Punjab organized Punjab Agriculture Conference. The venue of this conference was expo center Lahore. Rana Sanaullah, Awais Laghari, Dr. Farrukh Javed and other policy makers attended. Shahbaz Sharif announced development agriculture package. This column presented recommendations for agriculture sector and agricultural development in Pakistan
لاہور میں پنجاب ایگری ایکسپو کا آغاز
یہ کالم مارچ 2016 میں لکھی گئی
پنجاب ایگریکلچر کانفرنس
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
پنجاب ایگریکلچر کانفرنس کا انعقاد ۔۔۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی تقریب میں آمد ۔۔۔ رانا ثناء اللہ وزیرِ قانون، ڈاکٹر فرخ جاوید وزیرِ زراعت، اویس لغاری ممبرقومی اسمبلی، سمیت ممبرانِ پنجاب اسمبلی کی شرکت ۔۔۔ چیف سیکرٹری پنجاب ، سیکرٹری لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ، سیکرٹری زراعت، سیکرٹری خوارک،سیکرٹری ماہی پروری و جنگلی حیات سمیت پنجاب کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ متعلقہ یونیورسٹیوں کے سربراہان اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی شمولیت ۔۔۔ تمام سٹیک ہالڈرز کے ساتھ ساتھ کسانوں کی نام نہاد تنظیموں کے سرکار نواز نمائندے بھی موجود مگر افسوس کہ غریب تباہ حال مظلوم کسان کی کوئی نمائندگی نہیں۔ پھر بھی پنجاب ایگریکلچر کانفرنس کے انعقاد پر حکومتِ پنجاب داد کی مستحق ہے جبکہ کانفرنس میں چیف منسٹر اور وزراء کی دلچسپی قابلِ ستائش ہے۔
زراعت اور لائیوسٹاک جو کہ حکومت کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی ، زرعی کانفرنس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی طور پر شمولیت اور پھر رانا ثناء اللہ کا صبح دس بجے سے لیکر شام چھ بچے تک کانفرنس میں بیٹھے رہنا اور فعال کردار ادا کرنا ۔ ۔۔ شکر ہے کہ زراعت اور لائیوسٹاک کے Neglected شعبوں کی طرف حکومت نے نظر تو ڈالی۔
کانفرنس میں شہباز شریف صاحب نے زرعی شعبے کی بدحالی پر انتہائی افسوس کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار افسران کو ٹھہرایااور دبے لفظوں میں متعلقہ تعلیمی اور تحقیقی اداروں کے سربراہان کی بھی خبر لی۔ اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے کسانوں کے لئے 100 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کر دیا۔
جہاں تک زرعی اداروں کی بدحالی کا تعلق ہے تو کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے پہلے وزیرِ اعلیٰ کو خود اپنے فیصلوں کو Review کرنا چاہئے۔ اگر ادارے ٹھیک کام نہیں کر رہے تو پھر پاکستان کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی، جو فیصل آباد میں واقع ہے، اس کے وائس چانسلر کے لئے ایک ہی شخص کو بار بارکون منتخب کرتا ہے اور اب یہی کام لاہور میں واقع پاکستان کی واحد ویٹرنری یونیورسٹی میں بھی شروع ہو گیا ہے۔جب اداروں کے سربراہوں کی تقرریوں میں سیاست اور ذاتی مفادات کا عمل دخل ہو گا تو پھر ااداروں کے اندرونی نظام تباہی کا شکار ہو ں گے اور اس کا اثر مجموعی طور قومی معاملات پر پڑے گا۔ دوسری جانب رہی بات نیت پر شک کرنے کی تو گزارش ہے کہ اگر آپ کے معاملات ٹھیک ہوں گے تو آپ کی نیت پر کوئی بھی شک نہیں کرے گا۔ پیکج کا اعلان کر نے کے چند گھنٹے بعد ہی الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا پر اشتہارات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹی وی کے اشتہار سے کسان کا کچھ نہیں بدلے گا اور وہ نیت پر پختہ یقین کر لے گا کہ مقصد ہماری خوشحالی نہیں بلکہ ذاتی تشہیر ہے۔
ویسے سو ارب کا نام سن کر ہال میں بیٹھے کئی لوگوں کے منہ میں پانی آگیا ہوگا۔ مزہ آئے گا، اب نئے منصوبے بنیں گے۔ وہی پرانے چہرے متحرک ہو جائیں گے۔ اپنے بے وقعت کارناموں کی ڈینٹنگ پینٹنگ کر کے انہیں نئے انداز میں پیش کریں گے۔ پھر ان منصوبوں کے ڈائریکٹرز بن جائیں گے۔ پھر اپنے پرانے چہیتو ں اور چیلوں کو انہی منصوبوں میں Adjust کریں گے۔ نئی گاڑیاں آئیں گی۔ لمبی چوڑی تنخواہیں ہو گی۔ مراعات کی بہتات کے ساتھ ساتھ گھومنے کے لئے کھلا پٹرول ہو گا۔ دو تین سال موجیں کرنے کے بعد یہ چہرے رو پوش اور منصوبے نیم فعال یا غیر فعال ہو جائیں گے۔ پیکج مُک جائے گا ، achievments کی Presentations بن جائیں گی اور ٹی وی پر اشتہارات بھی چلیں گے، سرکاری progressive farmers حکومت کے نعرے لگائیں گے اور غریب کسان بیچارا ویسے کا ویسا بدحال رہے گا۔ آلو والے، مکئی والے ، کپاس والے، گنے والے، دودھ والے سب رو تے رہیں گے۔ زرعی مزدوروں کے گھروں میں فاقے ہی رہیں گے۔ مہنگی کھاد اور جعلی ادویات اس کا مقدر رہیں گی۔ پانی کے حق سے وہ محروم رہے گا ۔ اور واپڈا کے ناجائز بل اسے کھاتے رہیں گے۔زمیندار کو ریٹ نہیں ملے گا۔ اس کی پیداوار سٹورں اور گوداموں میں گلتی رہے گی۔ جبکہ سرمایہ دار باہر کے ممالک سے سبزیا ں، پھل اور خشک دودھ امپورٹ کر کے اس قوم کے معدوں میں زہر بھرتے رہیں گے۔
حضور کی نیت پر شک نہیں کرتے ۔۔۔ اب سو ارب کے پیکج کا اعلان کر دیا ہے تو پھر اپنے مخصوص انداز میں فیصلہ بھی کر لیں کہ اسے اس کے حقدار تک پہنچانا ہے جیساکہ آپ نے” میٹرو” اور “اورنج” چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔