پروفیشنل ایجوکیشن، ہم نصابی سرگرمیاں اور ویٹرنری پروفیشن
Professional Education and cocurricular activities in universities. Importance of cocurricular activities for veterinary profession. | پروفیشنل ایجوکیشن، ہم نصابی سرگرمیاں اور ویٹرنری پروفیشن
ویٹرنری ڈگری ایوارڈنگ انسٹیٹیوٹس ٹیلنٹ کمپٹشن کے موقع پر کلچرل شو اور نمائش کا اہتمام
پروفیشنل ایجوکیشن، ہم نصابی سرگرمیاں اور ویٹرنری پروفیشن
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
ایک پروفیشنل کسی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد کمیونٹی اور اپنے پروفیشن کی کس انداز میں خدمت کرتا ہے، اس بات کا انحصار محض اس کے ٹیکنیکل نالج پر نہیں ہوتا۔ معیارِ سوچ، اندازِ فکر،وسعتِ اخلاق، نظر کی کشادگی، تخلیقی صلاحیت، احساسِ ذمہ داری اور خود ا عتمادی جیسے اوصاف کا براہ راست دخل ہے کہ ایک پروفیشنل اپنی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس انداز میںServeکرتا ہے۔اگرچہ کسی شخص کی تر بیت کا بھی ان کمالات سے گہرا تعلق ہوتا ہے مگر ہم نصابی اور غیر نصابی سر گرمیاں اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ تقریر، مباحثہ، تحریر، ادا کاری، شعر و شاعری، بیت بازی، مصوری، کھیل کود اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں نہ صرف کسی طالبعلم کی شخصیت کو نکھارتی ہیں بلکہ اس میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ پروفیشنل تعلیمی اداروں میں موٹی موٹی کتابوں اور لمبے لبے لیکچروں سے فرصت پا کر جب سٹوڈنٹس کسی علمی ،ادبی یا ثقافتی مجلس میں شرکت کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ذہنی طور پر فریش ہوجاتے ہیں بلکہ انہیں بہت کچھ سیکھنے اور ہٹ کر سوچنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
پروفیشنل تعلیمی اداروں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف ڈگری ہاتھ میں تھمانے تک محدود نہ رہیں بلکہ تعلیم کو شخصیت کا حصہ بنانے کی بھی کوشش کریں۔ اگر تعلیم برداشت نہیں سکھاتی، شخصیت میں نکھار نہیں لاتی، سوچنے کا انداز نہیں بدلتی، ذہن کو وسیع نہیں کرتی، در دِ دل اور احساس پیدا نہیں کرتی ، تخلیقی سوچ کو اجاگر نہیں کرتی، اور vision کو broad نہیں کرتی؛ تو پھر ایسی تعلیم کے نتیجے میں آنی والی پروڈکٹ اور ایک عام مزدور میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں ہی اپنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اپنی قابلیت کے مطابق فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ یعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی بھی تعلیمی اداروں کا بنیادی فرض ہے اور یہ پروفیشنل تعلیمی اداروں کے لئے اور بھی ضروری ہے کہ یہاں سے نکلنے والے ڈاکٹر، انجینئر، فارما سسٹ، ایگریکلچرسٹ، ویٹرنیرین، اور دیگر پروفیشنلز معاشرے کی کریم ہوتے ہیں اور سماجی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی ویٹرنری سائنس فیکلٹی کی آرٹ اینڈ لٹریری سوسائٹی کے زیرِ اہتمام آل پاکستان ویٹرنری ڈگری ایوارڈنگ انسٹیٹیوٹس ٹیلنٹ کمپٹیشن کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان بھر سے ویٹرنری تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کے مابین نعت، قرات، تقریر، اداکاری اور گلوکاری سمیت دیگر شعبوں میں مقابلے کروائے گئے۔ اس سرگرمی سے نہ صرف ان اداروں کے طلباء و طالبات کو ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا بلکہ اپنی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھانے کا پلیٹ فارم بھی میسر آ یا۔ اس سرگرمی کے انعقاد پر یونیورسٹی کے ڈاکٹر اشعر محفوظ، ڈاکٹر مصباح اعجاز ،ڈاکٹر کاسب، ڈاکٹر مزمل ، ڈاکٹر جنید اورسٹوڈنٹس پر مشتمل ٹیم مبارکباد اور داد کی مستحق ہے۔یاد رہنا چاہئے کہ اسی طرح کی سرگرمی اس سے پہلے ویٹرنری کالج جھنگ میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں Quiz Competition کا انعقاد کیا گیا ۔
آرٹ اینڈ لٹریری سوسائٹی (ALS) زرعی یونیورسٹی کی ویٹرنری فیکلٹی کے طلباء و طالبات کو بہترین پلیٹ فارم مہیا کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کے ویٹرنری پروفیشن کے بیسیوں درخشاں ستاروں کی تربیت میں اس سوسائٹی کا بنیادی کردار رہا ہے۔ میں بھی زمانہ طالبعلمی میں اس سوسائٹی کا حصہ رہا اور یہاں سے بہت کچھ سیکھا ۔ ALS کی بنیاداسی یونیورسٹی کے شعبہ مائیکروبیالوجی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشاد نے رکھی جو اب ریٹائرمنٹ کے بعد اسی ادارے کی خدمت کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسزلاہور ، گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خاں کی ویٹرنری فیکلٹی اور چند دوسرے اداروں میں بھی ALS کی طرز پر سوسائٹیاں اور کلب کام کر رہے ہیں مگر ابھی بھی کچھ ویٹرنری تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں طلباء و طالبات کے لئے ایسا کوئی رسمی فورم موجود نہیں۔ ان اداروں کو چاہئے کہ ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں یا پھر کم از کم ایسی سرگرمیوں کا انعقاد ضرور کروایا کریں کہ بہت ضروری ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں اور غیر نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے ملاجلا ردِ عمل پایا جاتا ہے۔ کچھ ادارے تو ایسے ہیں جہاں طلباء و طالبات کو اس حوالے سے اچھے مواقع ملتے ہیں مگر کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جہاں کا ماحول اس سلسلے میں تھوڑا تنگ ہے۔ ان اداروں میں پڑھانے والوں کی اس مناسبت سے سوچ بھی مختلف ہے۔ کچھ پرفیسران سرگرمیوں کو انتہائی ضروری سمجھتے ہوئے ان کے فروغ کے لئے عملی طور پر کردار ادا کرتے ہیں جبکہ چند ایک ایسے بھی ہیں جو ان سرگرمیوں کو فضول اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہوئے بچوں کو محض کتابوں تک محدود رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ خیر جیسے بھی حالات ہوں اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کو مختلف انداز میں جاری رکھیں۔