یہ الیکٹیبلز ، ہم اور تبدیلی
Electables in Pakistan and Change in the system of Pakistan
ہمارے دادا کو کیوں مارا؟ ہمارے نانا کو کیوں پیٹا؟
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
پکی گلی،پختہ نالی، پانی کے پائپ اور گیس سپلائی کا لالچ۔۔ بغیر لائن میں لگے ڈومیسائل، شناختی کارڈ، اورپاسپورٹ بنوانے کا لالچ۔۔ بچے کی نوکری میں سفارش کا لالچ۔۔طاقتور کے سر پر بدمعاشی کا لالچ۔۔ بڑے کے ساتھ تعلقات کی بنا پر رعب جمانے کا لالچ۔۔ لوگوں کے کام کروا کر بلے بلے کروانے کا لالچ۔۔ ظلم اور ناجائز کاموں میں سپورٹ کا لالچ۔۔ تھانے کچہری میں مدد کا لالچ۔۔ ناجائز قبضوں میں حفاظت کا لالچ۔۔ ٹھیکوں اور کمیشنوں کا لالچ۔۔ فراڈ کرنے کا لالچ۔۔ مفت میں چوہدری بننے کا لالچ۔ ۔ یہ لالچ کہیں رکنے نہیں دیتا اور بہتر سے بہتر تر پر اکساتا رہتا ہے۔
دولت اور طاقت میں آگے بڑھنے ، پوزیشن کو قائم رکھنے اور بغیر محنت اورایمانداری سے کمانے کی حوس ناجائز طاقت کا لالچ پیدا کرتی ہے۔ اس ناجائز طاقت کے حصول کے لئے ناجائز طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ ان ناجائز طریقوں کے لئے طاقتورکی سرپرستی حاصل کی جاتی ہے اور اس کے لئے طاقتور کے قریب ہونا پڑتا ہے۔طاقتور کے قریب ہونے کے لئے اس کے ظلم، فراڈ اور ناجائز کاموں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی حمایت کرنا پڑتی ہے۔
دوسری جانب خوف کہ اگر کہیں مصیبت پڑ گئی تو اس گندے سسٹم میں طاقت کی ضرورت پڑے گی اور پھر اس طاقت کے لئے کسی طاقتور کے قریب ہونا پڑے گا۔ بچوں کو نوکری نہ ملنے کا خوف، تھانے کچہریوں کی ذلت کا خوف،ناجائز قبضوں کا خوف، پولیس گردی کا خوف، دفتروں کے دھکوں کا خوف، سرکاری افسروں اور کلرکوں سے بے عزتی کاخوف اور سب سے بڑھ کر جاگیر داروں، وڈیروں، اور سرداروں کے ظلم کا خوف۔
اسی خوف اور لالچ سے Electables بنتے ہیں ۔ یعنی ہم ہی ہیں جو Electables بناتے ہیں اور ذمہ دار ہمارا لالچ اور خوف ہے جو اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ایسے لوگوں کے بنانے میں حصہ ڈالتا ہے۔ یہ اس لئے بنتے ہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ ضرورت کے مطابق ان کو چاہتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ محلے کے امام صاحب نے ایک Electable کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ گھر گھر ووٹ مانگنے جار ہے تھے۔ ایک گھر میں پہنچے تو وہاں سے ایک صاحب نکلے ۔ کہنے لگے کہ قاری صاحب کیا جب کبھی میرا بیٹا کسی سے لڑ پڑا اور اس کا سر پھاڑ آ یا، تو آپ میرے ساتھ تھانے چلیں گے؟ قاری صاحب نے جواب دیا کہ اگر تمہارا بیٹا حق پر نہ ہوا اور اس نے ظلم کیا ہوا تو میں ہرگز ساتھ نہیں دوں گا۔ انہوں نے جواب دیا تو پھر قاری صاحب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ مجھے ووٹ نہ دیں بلکہ آپ کی شخصیت محلے کی اکثریت کو بتا رہی ہے کہ آپ کو ووٹ نہ دیا جائے۔ اس لئے آپ اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں، آپ الیکشن ہار جائیں گے۔ اور پھر وہ الیکشن ہار گئے۔
لوگ ووٹ ایسے شخص کو دیتے ہیں کہ جب دکان کے باہر پانچ فٹ بغیر ضرورت کے بڑھائے ہوئے غیر قانونی تھڑے کو بلدیہ والے گرانے آئیں تو وہ کونسلر اس کے تھڑے کو بچائے۔ہم اپنے بچے کی تربیت ،تعلیم یا ہنر پر توجہ دینے اور اسے محنت کا سبق سکھانے کی بجائے طاقتور سے آس لگاتے ہیں کہ سفارش کر کے مجھ غریب کے بچے کو نوکری لگوا دے۔
یہ ہے وہ گندا سسٹم جس کا ہم سب حصہ ہیں اور جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ہی کو دبایا جاتا ہے۔ تبدیلی کی ضرورت تھی اور یہ آ بھی رہی تھی مگر افسوس کہ اس کی آخری امید بھی ختم ہو گئی۔ شعور بیدار ہو نے لگا تھا ، سوال ہونا شروع ہو گیا تھا، حق اور باطل میں تمیز کا کم از کم احساس ضرور ہونے لگا تھا، پرفارمنس کی بات ہونے لگی تھی، جسٹی فیکشین دی جانے لگی تھی۔ یہی وہ تبدیلی ہے جس کی ضرورت تھی اور اسی نے آہستہ آہستہ سسٹم کو ٹھیک کرنا تھا مگر افسوس کہ اس گندے سسٹم نے تبدیلی والوں کو ہی بدل دیا اور پھر یہ تبدیلی والے اپنی اندر ہی ہونے والی اچانک تبدیلی کیJustifications دینے لگے۔ یہاں بھی لالچ اور خوف نے کام دکھایا۔ خوف کہ پتہ نہیں اگلے دس سال تک ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے اور لالچ کہ کسی طرح اقتدار ہاتھ آجائے۔ پھر اسی خوف اور لالچ کی وجہ سے ان طاقتوروں کو ساتھ ملانا پڑا۔
حل ہے، اور وہ ہے تربیت اور تعلیم ۔ تربیت تو ختم ہو گئی کہ ماں کہ پاس ڈراموں اور موبائل سے فرصت نہیں اور باپ کو تربیت کے برعکس بچے کے مستقبل کی فکر ہے۔ پھر سکول کا سہارا لیا اور تعلیم کے ذمے چھوڑ دیا۔ اب وہ تعلیم جس کا مقصد انسان کو انسان بنانے کے برعکس ڈاکٹر ، انجینئر، وکیل، جج، افسر، بیوروکریٹ بنانا ہواور انسانیت سکھانے کے برعکس نوکری کا حصول اور دولت کمانا ہو، اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ بنیاد پر جاتے ہوئے خوف اور لالچ کو ختم کرنا پڑے گا اور اس کے لئے ایسی تعلیم کی ضرورت ہو گی جو انسان کو انسان بنائے، انسانیت سکھائے اور ایمان کو مضبوط کرتے ہوئے خوف اور لالچ کو کم کرے۔تبدیلی والوں، نظریے والوں، احتساب والوں، روٹی کپڑا مکان والوں سے توقع رکھنا عقلمندی نہیں کہ یہ سب ایک ہیں اور سب سے اہم کہ یہ سب وہی ہیں جو ہم ہیں۔ پہلے اندر تبدیلی لائیں، پھر باہر کی تبدیلی کی توقع رکھیں۔
2 Comments
Nice
I love your writing style really loving this site.