مرغی کے گوشت کا ریٹ اور چند حقائق
Facts about Chicken Prices | مرغی کے گوشت کا ریٹ اور چند حقائق
مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافہ اور حکومتی رد عمل
مرغی کے گوشت کا ریٹ اور چند حقائق
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
مرغی کے گوشت کے ریٹ میں اضافہ اور افسروں کی دوڑیں ۔۔۔ ہنگامی، اجلاس، پکڑ دھکڑ اور پولٹری انڈسٹری پر پریشر ۔ ۔۔ عوام کی دہائیاں اور پولٹر ی مافیا کی باتیں۔ جب کبھی بھی مرغی کے ریٹ میں اضافہ ہوتا ہے ، اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے۔ انتظامیہ بجائے یہ کہ معاملے کو سمجھے اور اس کے حل کی طرف جائے، ایکشن شروع کر دیتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت اور میڈیا اس ضمن میں سب کی سنتے ہیں مگر پولٹری فارمر کی طرف کسی کی توجہ نہیں ۔
پولٹری کنٹرول شیڈ بنانے میں سرمایہ کاری، پھر اس میں چوزے کا ڈلنا، فیڈ کے خرچے، لیبر ، بجلی، پانی اور دیگر اخراجات، بیماری کی صورت میں علاج معالجے پر بھی خرچ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ سر درد الگ اور لاکھوں کروڑوں کی سرمایہ کاری بھی رسک پر۔ یہ سب کچھ اوپن مارکیٹ سسٹم کے تحت ہوتا ہے۔ چوزے سے لیکر تیار مال کو گاڑیوں میں لوڈ کرنے تک تمام اخراجات پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ کوئی چیز مہنگی ہے یا سستی ، رقم فارمر اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ جب فارمنگ کی inputsکی قیمتو ں میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تو پھر مرغی کی قیمتِ فروخت کو قابو کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا ۔
تیس سے چالیس دن کی مسلسل محنت کے بعد تیار ہونے والی اس مرغی کا ریٹ گزشتہ کئی مہینوں سے کم رہا۔ ”ایک سروے کے مطابق گزشتہ بیس سالوں کے دوران دیگر اجزائے خوراک جیسے دالیں، گندم، چاول وغیرہ کی قیمتوں میں 700 سے 800 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مرغی کے گوشت کی قیمت صرف 400 گنا بڑھی۔ اگر مزید گہرائی میں جاتے ہوئے صرف گزشتہ پانچ سالوں کا موازنہ کریں تو مرغی کے گوشت کی قیمت میں بتدریج کمی نظر آتی ہے جبکہ اس کی فارمنگ پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں” ۔۔۔ یہ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کا موقف ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق پولٹری فارمرز گزشتہ تین سالوں اور خصوصاََ پچھلے دس مہینوں سے شدید مندی کا شکار ہیں ۔ مسلسل نقصان کے باعث پولٹری فارم بند ہو رہے ہیں۔ اب کہیں جا کر ریٹ میں کچھ بہتری آئی ہے ۔اسی امید پر تو پولٹری فارمر ز لگے رہتے ہیں کہ سال دو سال میں کوئی فلاک ایسا آ ہی جائے گا جو فائدہ نہیں تو کم از کم سال بھر کا نقصان ہی پورا کر دے گا۔
یہ پراپیگنڈا سرا سر غلط ہے کہ کسی جگہ پولٹری کے ریٹ کو کنٹرول کیا جاتا ہے یا پھر پولٹری کا ریٹ طے ہونے میں کسی مافیا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھ لینا انتہائی ضروری ہے پولٹری کا ریٹ سو فیصد ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول پر طے ہوتا ہے ۔ جب ڈیمانڈ کے مقابلے میں سپلائی کم ہو گی تو ریٹ بڑھ جائے گا، اس کے برعکس کم ڈیمانڈ اور زیادہ سپلائی کی صورت میں ریٹ کم ہوگا۔ متعلقہ اداروں کو اگر پھر بھی زیادہ ریٹ کی صورت میں حرکت میں آنا ہو تو ضرور آئے مگر اس کے لئے یہ شرط ضروری ہو گی کہ کم ریٹ کی صورت میں بھی اسسٹنٹ کمشنر کی نیلی بتی والی گاڑیاں گردش میں آئیں۔ جب اپنی پیداوری لاگت سے کم یا برابری میں یا پھر انتہائی کم منافع پر پولٹری فارمر مرغی بیچ رہا ہوتا ہے تب حکومتی اداروں کو ہوش نہیں ہوتی۔ مگر جونہی ریٹ کچھ بہتر ہوا اور فارمر کو ہوش آنے لگی تو ادھر سے سوئی ہوئی حکومت بھی جاگ جاتی ہے۔
پاکستان کی پولٹری انڈسٹی کا شمار منظم ترین شعبوں میں ہوتا ہے۔ یہ انڈسٹری پاکستان میں سستی پروٹین کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ اس انڈسٹری کا ہی کمال ہے کہ آج ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ گوشت کھا سکتے ہیں۔ اس انڈسٹری سے جہاں بڑے بزنس گروپس منسلک ہیں وہاں بہت بڑی تعداد میں چھوٹے سرمایہ کار بھی موجود ہیں ۔ کم و بیش اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد کا روزگار اس انڈسٹری سے منسلک ہے۔ لہٰذا اس انڈسٹری کی بقا کے لئے ضر وری ہے کہ اس کے ریٹ میں حکومت دخل نہ دے۔ اگر اسے کنٹرول کرنا ضروری ہے تو پھر کم ریٹ کی صورت میں بھی اپنا کردار ادا کیاکرے اور نقصان اٹھانے والے فارمرز کا سہارا بنا کرے۔ دوسری جانب انتہائی سستا گوشت کھانے کے عادی عوام کو جب زیادہ ریٹ بھرنا پڑتا ہے توان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ مسلسل سستا گوشت اس انڈسٹری کو ختم کر دے گا۔ فارمر اسی وقت فارمنگ کرے گا جب اسے چار پیسے بچیں گے۔ مسلسل نقصان کی صورت میں لوگ بھاگتے چلے جائیں گے اور فارمنگ کرنے والا کوئی نہیں بچے گا۔
ایک اور اہم مسئلہ پولٹری پروڈکٹس کے خلاف بے بنیاد میڈیا کمپین کا ہے۔ برائلر گوشت اور ولایتی انڈوں کے بارے طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر کے لوگوں کو متنفر کیا جاتا ہے۔ اس کے حل کے لئے نہ صرف پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے بلکہ اس سلسلے میں پیمرا کو بھی ایکشن لینا چاہئے۔ پاکستان کی اتنی بڑی انڈسٹری کو دو چاراینکرزکے رحم و کرم پر چھوڑنا بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان پولٹری انڈسٹری کو اس بات کا احساس ہو جانا چاہئے کہ اس انڈسٹری کی ترقی کا دارومدار انڈے اور گوشت کی زیادہ سے زیادہ کھپت پر ہے۔پاکستانی عوام کو اس بات کا یقین دلانا ہو گا کہ یہاں ہر پولٹری فارم کا چکن Safe اور Healthy ہوتا ہے۔ اس کے لئے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کو پروفیشنل میڈیا مینجمنٹ اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی طرف جانا ہو گا۔