انٹرنیشنل حلال کانفرنس | International Halal Conference
حلال فوڈ میں ریسرچ کو فروغ دیا جائے گا،وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز
انٹرنیشنل حلال کانفرنس
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
روزمرہ کی اشیاء ۔۔ جو کچھ بھی استعمال کرتے ہیں ۔۔ بطور کنزیومرہمارا یہ حق ہے کہ ہمیں علم ہو ۔۔ علم اس بات کا کہ کیا استعمال کر رہے ہیں ۔ ۔ اس کی اصل حقیقت کا علم۔ ایک مسلمان کے لئے اشیائے ضروریہ کے انتخاب میں سب اہم حلال اور حرام کا تصور ہوتا ہے۔ ہم جو کھاتے، ہم جو پہنتے ہیں، جو سنگھار کرتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، علاج کرواتے ہیں، سفر کرتے ہیں، تفریح کرتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔۔ کیا یہ سب حلال ہے ؟ مسلم ممالک میں تو شاید صارفین کو حلال پروڈکٹس اور سروسز کے حصول میں اتنی دقت نہ ہوتی ہو مگر غیر مسلم معاشروں میں موجود مسلمانوں کے لئے حلال پروڈکٹس کی فراہمی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ دوسری جانب کوالٹی اور صحت کے مسائل کی بدولت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی حلال پروڈکٹس خصوصاََ حلال فوڈ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہی وہ ضرورت ہے جو عام مارکیٹ کے ساتھ ساتھ حلال مارکیٹ کی بنیاد رکھتی ہے اور اسی سے پھر گلوبل حلال مارکیٹ کا تصور ابھرتا ہے۔ یہ مارکیٹ صرف مسلم اکثریتی ممالک تک محدود نہیں بلکہ یورپ ، امریکہ اور دیگر غیر مسلم خطوں میں بھی اس کا بڑا سکوپ ہے۔
گلوبل حلال مارکیٹ میں ہمارا حصہ بہت کم ہے۔ ہندوستان اور چین کا ہم سے زیادہ ہے، کئی گنا زیادہ ۔زراعت اور لائیوسٹاک ۔۔ اگرچہ حکومت کی یہ ترجیحات نہیں ۔۔ مگر ہماری معیشت کا انحصار انہی شعبوں پر ہی ہے۔ ہم حلال مارکیٹ میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستانی سرمایہ کار میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ گلوبل حلال مارکیٹ میں اپنی پروڈکٹس کی اچھی جگہ بنا سکے ۔۔ مگر اس کے لئے حکومت کا تعاون ضروری ہو گا۔ چلیں دنیا کی حلال مارکیٹ میں جگہ بنانے کی بات تو بعد میں کریں گے، یہاں ضروری یہ ہے کہ پاکستان میں جو ہم کھانے پینے کی اشیاء، کاسمیٹکس اور دیگر مصنوعات استعمال کر رہے ہیں ، خصوصاََ وہ مصنوعات جو امپورٹ کی جاتی ہیں، کیا حلال ہیں ؟۔کیا ان مصنوعات کی تیاری میں حرام اجزاء کی آمیزش تو نہیں ہوتی ؟ اسی سوچ نے حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی کی بنیاد رکھی۔
پنجاب حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی نے گزشتہ دنوں انٹر نیشنل حلال کانفرنس کا انعقاد کیا۔ لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ اس دو روزہ کانفرنس میں غیر ملکی وفود کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ماہرین نے شرکت کی۔ حلال مارکیٹ میں دلچسپی رکھنے والی پاکستانی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی نمائش کے لئے سٹالز لگائے۔ ٹیکنیکل سیشنز میں ماہرین نے حلال انڈسٹری کے مختلف پہلوؤں اور گلوبل حلال مارکیٹ میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر روشنی ڈالی ۔ سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ صارفین کی دلچسپی کے لئے کوتھم کے تعاون سے پاکستانی پکوان کا مقابلہ بھی کروایا گیا جس میں کالجز کی طالبات نے شرکت کی ۔یہ حلال کانفرنس پہلی دفعہ منعقد نہیں ہوئی بلکہ چھٹی کانفرنس ہے، اور خوبصورت بات یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں اس کا تسلسل ٹوٹا نہیں۔ محدود وسائل، حکومتی عدم دلچسپی اور مافیا کا دباؤ، اس کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت ایجنسی کے چیئرمین جسٹس (ر) خلیل الرحمٰن خاں کا کوشش جاری رکھنا قابلِ ستائش ہے۔
حکومتِ پنجاب نے پہلے حلال ڈیویلپمنٹ سیل قائم کیاپھر اسے ایجنسی کادرجہ دے دیا۔ اب یہ ادارہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے پنجاب حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی کے نام سے معرضِ وجود میں آ چکا ہے۔ پاکستان نیشنل ایکریڈیٹشن کونسل (PNAC)نے اسے سرٹیفیکیشن باڈی کا بھی درجہ دے دیا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کا واحد سرکاری ادار ہے جو کسی بھی پراڈکٹ کو حلال ہونے کی سند دے سکتا ہے۔ اس ادارے کی سند یافتہ مصنوعات اب بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی ” سرٹیفائیڈ حلال” تسلیم کی جاتی ہیں کیونکہ ملائیشیا کے ادارے JAKIM نے اسے انٹرنیشنل حلال سرٹیفیکیشن کا اختیار دے دیا ہے۔
” پنجاب حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی ایکٹ کی منظوری سے ہمیں قانونی کارروائی کا حق حاصل ہو گیا ہے مگر میں پکڑ دھکڑ میں یقین نہیں رکھتا۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے سوائے تالیاں بجوانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حلال انڈسٹری کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ حلال سٹینڈرڈز پر کام کیا جائے۔ ہم آگاہی اور تربیت کی بدولت مضبوط بنیادیں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے کسی بھی ادارے کی سرٹیفیکیشن سے پہلے اس کی عملی تربیت کی جاتی ہے”۔ جسٹس صاحب نے ایک ملاقات میں بتایا ۔
اس ادارے کا سب اہم کارنامہ مختلف مصنوعات میں استعمال ہونے والےfood additivesپر مشتمل کتاب کی تیاری ہے۔ آپ جب کوئی کھانے کی چیز خریدیں، مثلاََ چپس کا پیکٹ۔ اس پروڈکٹ میں استعمال ہونے والے food additives ایک کوڈ کی شکل میں درج ہوتے ہیں۔ یہ کوڈ E Number کہلاتے ہیں جو دنیا بھر میں ہر جزو کے لئے ایک ہے ۔ پنجاب حلال ڈیویلپمنٹ ایجنسی نے دیگر ممالک کے اداروں کی معاونت سے ان کوڈز کو ایک کتاب میں اکٹھا کر دیا ہے۔ کتاب میں ہر کوڈ کے آگے اس additive کا source،اس کا استعمال اور اس کا حلال یا حرام ہونا درج ہے۔ اس کتاب کی بدولت آپ کسی بھی چیز کا خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس میں کوئی ایسا Additive تو موجود نہیں جو حرام ہو۔ کتاب کا حصول مشکل نہیں، معلومات اس ویب سائیٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں www.phda.com.pk۔
انتہائی محدود وسائل کے باوجود یہ ادارہ کام کر رہا ہے ۔ حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے اور اس سلسلے میں خصوصی فنڈز جاری کرنے چاہئیں۔اگر حکومت اس ادارے میں حقیقی دلچسپی لے اور صنعت کاروں کو سہولیات فراہم کرے تو پاکستان حلال مارکیٹ میں بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔