حکومتِ پنجاب کی کمپنیاں – کنسیپٹ تو اچھا تھا مگر !۔
Companies of Punjab Government – A good concept for good governance in Punjab
لائیوسٹاک سے متعلقہ کاروبار کے لئے لائسنس کا حصول آسان، بزنس فسیلیٹیشن سنٹرمیں نمائندہ موجود
-حکومتِ پنجاب کی کمپنیاں
تو اچھا تھا مگر !۔ Concept
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
الجھے سرکاری مراحل، قانونی پیچیدگیاں، سیکریٹریٹ کے چکراور بیوروکریسی کی چالاکیاں۔۔ ایک فائل افسر کے بعد متعلقہ محکمے کے سیکرٹری اور پھر منسٹر کے پاس رُلتی رہتی ہے۔۔approvalکے بعد پلاننگ والوں کے اعتراضات اور پھر فنانس ڈیپارٹمنٹ کی خواہشات۔۔ یہاں تک کہ وزیرِ اعلیٰ کی منظور ی کے باوجود کئی دفعہ فنڈز جاری نہیں ہو پاتے کہ افسر شاہی کا اپنا مزاج اور طریقہ کار ہے۔ اسی بیوروکریسی کو بائی پاس کرنے کے لئے ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی گئی جو پرائیویٹ سیکٹر کی طرح کام کرے۔ چند ایسی کمپنیاں بنا دی گئیں جو منصوبہ جات کی تیاری، بھرتیوں ،خریداری اور اخراجات وغیرہ کے لئے کسی قانونی اجازت نامے یا سرکاری ٹھپے کی محتاج نہ ہوں۔ ایسی کمپنی ایک چیف ایگزیکٹو افسر کے ذریعے چلے جو کہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرز پر اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ہدایات لے اور اسی کو جوابدہ ہو جبکہ مکمل اختیارات بورڈ کے چیئرمین کے پاس ہوں ۔ پرائیویٹ سیکٹر ہی کی طرز پر کمپنی کا آڈٹ ہو اور کسی بھی مسئلے کی صورت میں بورڈآف ڈائریکٹرز خود فیصلہ کرے ۔ حکومت کا کوئی بھی افسر یا اعلیٰ عہدیدار کمپنیوں کے معاملات میں براہِ راست دخل نہ دے البتہ حکومت ان کی مانیٹرنگ ضرور کرے۔
Concept تو اچھا تھا کہ سرکاری سستی سے نکل کے یہ ادارے برق رفتاری کے ساتھ کام کریں گے اور اپنے مقاصد جلد حاصل کرتے ہوئے کوئی تبدلی لے کر آئیں گے۔۔ مگر بد قسمتی سے نتائج یکسر مختلف نکلے ۔
کسی نے سوچا ہو گا کہ اس سسٹم کو تو بدلا نہیں جا سکتا ہے چلیں کمپنیوں کی شکل میں کوئی نیا نظام ہی بنا لیتے ہیں ، ہو سکتا ہے بہتری آ جائے۔ آغاز شاید بہتر رہا اور ان میں سے اکثر کمپنیوں نے اپنی روح کے مطابق کام بھی کرنا شروع کر دیا مگرچند مہینوں بعد ہی حالات بدلنے لگے۔ اس متباد ل نظام سے زیادہ پرابلم بیورو کریسی کو تھی کہ پنجاب میں کام ہونے لگا اور ان کو لفٹ ہی نہیں۔دوسری جانب سیاسی قیادت کو بھی جلد احساس ہو گیا کہ اس طرح کا نظام قابلِ قبول نہیں ہو سکتا ؛اب صرف کام سے پیٹ تو نہیں بھرتا۔ بس پھر بجائے یہ کہ نئے ادارے سسٹم سے الگ ٹریک پر چلتے رہتے ، سسٹم ان کی طرف بڑھنے لگا۔ پہلے مختلف محکموں میں کام کرنے والے سرکاری افسروں کو ڈیپوٹیشن وغیرہ کے ذریعے ان کمپنیوں کا حصہ بنایا گیا، پھر بیورکریٹس پرائیویٹ لوگوں کو ہٹاتے ہوئے اضافی چارج لینے لگے اور آخر میں خود ہی سربراہ بن گئے۔ سسٹم کی بہتری کا نعرہ لگانے والے چیف منسٹر پنجاب نے بعد میں سیاسی لوگوں کو بھی ان کمپنیوں میں شامل کرنا شروع کر دیاکہ کوئی چیف ایگزیکٹو آفیسر بن گیا ، کوئی چیئرمین اور کوئی بورڈ ممبر۔ پھر بہت جلد یہ Not for Profit کمپنیاں انہی سیاستدانوں اور شاہی افسروں کے لئے پرافٹ کا ذریعہ بن گئیں۔ اب نتیجہ سامنے ہے ’’ پنجاب کمپنیز سکینڈ ل‘‘۔
ملتے جلتے اس سے پہلے ہونے والے تجربات اور حکومت پنجاب کی کمپنیوں والے اس تجربے سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ کوئی بھی متبادل عارضی نظام مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص واقعی بہتری چاہتا ہے تو اس کے لئے اسے سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ سیاسی مداخلت کو ختم کرتے ہوئے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا ۔ اگر صرف انصاف اور احتساب کا نظام ہی بہتر ہوجائے تو سسٹم کو بہتری کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔میرے خیال میں صرف حکومت اور اس سے منسلک چند ہزار افراد کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ کرپشن، نااہلی، کام چوری ، سفارش ، تعصب اور اقربا پروری کی دلدل میں ہم بطور قوم پھنستے جا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ بطور عوام اس سسٹم سے کس جگہ کتنا اور کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور اہم یہ کہ اس نظام کی تبدیلی کو ہم کس حد تک afford کر سکتے ہیں۔
سسٹم کو نہ چھیڑنے والا سست ، نا اہل اور کرپٹ بیوروکریٹ اگر کسی ضلع کا ڈی سی یا کسی محکمے کا سیکرٹری لگ جائے تو ٹیکنوکریٹس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی کہ وہ انہیں نہیں چھیڑتا اور یہ اُس کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں مگر جونہی کوئی ایماندار بیوروکریٹ کسی محکمے کا سیکرٹری لگتا ہے تو سب کی چیخیں نکل جاتی ہیں کہ کام کرنا پڑ تا ہے اور روٹیاں بھی بند ہو تی ہیں ۔پھر قوانین، اصول اور قواعد و ضوابط یاد آنے لگتے ہیں اورایسے بیورکریٹ کو کرپٹ ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے تماشے کئے جاتے ہیں۔ دوسری جانب اگر نچلے درجے کا کوئی افسر ایماندار ی دیکھانے کی کوشش کرے تو اس کا survival ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ بس سسٹم ایسا ہے کہ لوگوں کو ایماندارکلرک suit نہیں کرتے ،کلرکوں کو ایماندار افسر جبکہ ٹیکنوکریٹس کو ایماندار بیوروکریٹس نہیں ۔ بیورو کریسی کے لئے ایماندار اور محنتی وزیر جبکہ وزراء کے لئے ایماندار بیوروکریسی وبالِ جان بن جاتی ہے۔ ہائی کلاس، اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کو یہی سسٹم سوٹ کرتاہے کہ اگر کسی جگہ بھی کوئی کام کرنے والا صاف افسر آ جائے تو نیچے والوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں اورپھر اوپر والوں سے مل کر اس کی چیخیں نکلوانے کی کوشش کی جاتی ہے، عائشہ ممتاز کی مثال سامنے ہے۔ رہا مسئلہ لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے عام لوگوں کا تو انہیں ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں کہ بس دو وقت کی روٹی کی فکر ہی سوچنے نہیں دیتی۔