جانوروں کا عالمی دن
World Animal Day is observed every year on October 4. This Day is observed for the rights of animals. Animal rights activists raise voices for the welfare of animals. Every year, a theme is issued for this day. Pakistan also observe this day. Different types of activities are conducted. A Column of Dr. Muhammad Jassar Aftab
پاکستان کے چڑیا گھروں کے حالات پر لکھی گئی ایک تحریر
اینیمل رائٹس ایکٹوسٹس کی آئی جی پنجاب سے ملاقات
مضامینِ نو
آج جانوروں کا عالمی دن
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
آج جانوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔مقصد، جانوروں کو سانس اور احساس والی چیز سمجھنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی جانب، توجہ دلانا ہے ۔ اس دن کو منانا ضروری بھی ہے اور اس دور میں اور بھی ضروری کہ جہاں انسانیت کے درجے سے گرے اقدامات اور ایسی خواہشات عام ہوتی جا رہی ہو ں، وہاں جانور کیسے یاد رہیں گے ۔
اگرچہ دنیا بھر میں یہ دن ہر سال چار اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی اس سلسلے میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور اس سال بھی ہو رہا ہے مگر ہمارے ہاں جانور کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ایک تو ہمارا مذہب جو ہمیں جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور ان پر کسی بھی قسم کے ظلم یا تشدد کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ دوسری جانب یہ خطہ۔ یہاں کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہاتوں یا نیم دیہاتی چھوٹے شہروں میں آباد تھا اور آج بھی بڑا تناسب اسی جانب جھکتا ہے۔ یہاں جانور فیملی کا حصہ تصور کیا جاتا ۔ چار پائی پر بیٹھے فیملی ممبر ، اسی کے پائے کے ساتھ بندھی بکری اور اس کے گرد پھرتے اس کے بچے۔ ار گرد گھومتی مرغیاں، آنکھوں کے سامنے بندھی گائے بھینسیں اور گھر کے باہر ٹہلتی بطخیں۔ ان جانوروں کی دیکھ بھال ، ان کی خوراک اور پانی کا انتظام، ان کی نہلائی دھلائی اور صفائی، ان کی دھوپ چھاؤں کا خیال اور ان کے علاج معالجے کا بندوبست؛ سب اسی طرح ہوتا جس طرح گھر کے افراد کے لئے ۔
کسی کی بھینس کے بیمار ہونے پر ہمسایوں کی جانب سے تیمارداری کی جاتی اور خدانخواستہ کسی جانور کے مر جانے پر گاؤں کے افراد سمیت رشتے دار تعزیت کو آتے اور دکھ بانٹتے۔ اسی طرح جانور کی پیدائش پر بھی خوشی میں سب شریک ہوتے ۔ یہ بات درست کہ مادہ پرستی کے پروان چڑھنے سے اس کلچر میں کمی آتی جا رہی ہے لیکن آج بھی پاکستان کے دیہی علاقوں میں اور خاص طور پر دور دراز کے دیہی علاقوں میں یہ ماحول موجود ہے۔ جانور چاہے گھر میں ہو یا ڈیر ے پر ، اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب کتے، بلیاں، پرندے اور دیگر پالتو جانور، جن لوگوں نے پال رکھے ہیں، وہ بھی ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں علاج گاہیں بھی موجود ہیں اور ایسے جانوروں کے لئے خوراک وغیرہ کا بھی بندوبست ہو جاتا ہے۔
جانوروں کے حقوق کے حوالے سے ایک مسئلہ سامنے آ رہا ہے کہ لوگ اپنے جانور خصوصاََ گدھے گھوڑے اورکسی جگہ گائے بھینسیں کھلے چھوڑ دیتے ہیں جو بغیر کسی انسانی کنٹرول کے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں۔ ایسے جانور ہائی ویز کے درمیان بنی گرین بیلٹ پر چرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرنا ک چیز ہے ،جانور اور انسان دونوں کے لئے۔ جب کو ئی گاڑی کسی ایسے جانور سے ٹکراتی ہے توبڑا حادثہ پیش آتا ہے۔ اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے اور اس سلسلے میں ایسے جانوروں کے مالکان کے لئے آگاہی مہم بھی شروع کی جانی چاہئے۔
ہمارے ہاں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ آوارہ بلیوں کتوں کا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو کوئی منظم ادارہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی پلاننگ۔ دوسری جانب لوگوں کی جانب سے ان پر بے جا تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ جانور اکثر زخمی حالت میں بھی پھرتے نظر آتے ہیں۔ زخمی جانوروں میں ٹریفک حادثات کا شکار ہوجانے والے جانور، خصوصاََ بوجھ اٹھاتے گھوڑے گدھے ،بھی شامل ہیں۔
ہمارے پاس انسداد بے رحمی مویشیاں جیساادارہ موجود ہے۔ اس کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہئے اور اس کا الحاق ریسکیو 1122 سے کرنا چاہئے جو سڑک پر جانور کو حادثہ پیش آنے کی صورت میں مخصوص ایمبولینس کے ذریعے اسے فرسٹ دینے اور ہسپتال منتقل کرنے کا انتظام کرسکے ۔ دوسری جانب ایسے اداروں کے پاس ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ انتہائی بری حالت کے شکار آوارہ جانوروں کو ریسکیو کرسکیں یالوگ ان تک پہنچا دیں اور پھر یہ اس کی دیکھ بھال کر لیں۔ اس سلسلے میں کچھ فلاحی تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں، ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور مزید تنظیموں کو بھی آگے لانا چاہئے۔
اس دن کی مناسبت سے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جانور سانس لیتے ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں۔ ان کو تکلیف بالکل اسی طرح ہوتی ہے جیسے ہمیں۔ ہم اپنی خوراک، مال برداری، تحقیق اور حتیٰ کہ انٹرٹینمینٹ کے لئے ان جانوروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان جانوروں کے حقوق کا خیال بھی رکھیں۔ اگر کوئی جانور شوق یا کاروبار کی غرض سے پال رکھا ہے تو اس کی فطری ضروریات کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے اور اس کے لئے ہم جوابدہ بھی ہیں۔ دوسری جانب گلی محلوں میں پھرتے جانوروں کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور انہیں کھانے کو کچھ نہ کچھ دیتے رہنا چاہئے۔
ا گرچہ یہاں انسانوں کے حقوق پورے نہیں ہوتے اور ایک عام انسان ہی دوسرے عام انسان کے حقوق روندتا دکھائی دیتا ہے مگر ان حالات میں بھی جانوروں کے حقوق کی بات کرنے میں مضائقہ نہیں ۔
آج جانوروں کا عالمی دن
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
آج جانوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔مقصد، جانوروں کو سانس اور احساس والی چیز سمجھنے اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کی جانب، توجہ دلانا ہے ۔ اس دن کو منانا ضروری بھی ہے اور اس دور میں اور بھی ضروری کہ جہاں انسانیت کے درجے سے گرے اقدامات اور ایسی خواہشات عام ہوتی جا رہی ہو ں، وہاں جانور کیسے یاد رہیں گے ۔
اگرچہ دنیا بھر میں یہ دن ہر سال چار اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی اس سلسلے میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور اس سال بھی ہو رہا ہے مگر ہمارے ہاں جانور کی ایک خاص اہمیت ہے۔ ایک تو ہمارا مذہب جو ہمیں جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور ان پر کسی بھی قسم کے ظلم یا تشدد کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ دوسری جانب یہ خطہ۔ یہاں کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دیہاتوں یا نیم دیہاتی چھوٹے شہروں میں آباد تھا اور آج بھی بڑا تناسب اسی جانب جھکتا ہے۔ یہاں جانور فیملی کا حصہ تصور کیا جاتا ۔ چار پائی پر بیٹھے فیملی ممبر ، اسی کے پائے کے ساتھ بندھی بکری اور اس کے گرد پھرتے اس کے بچے۔ ار گرد گھومتی مرغیاں، آنکھوں کے سامنے بندھی گائے بھینسیں اور گھر کے باہر ٹہلتی بطخیں۔ ان جانوروں کی دیکھ بھال ، ان کی خوراک اور پانی کا انتظام، ان کی نہلائی دھلائی اور صفائی، ان کی دھوپ چھاؤں کا خیال اور ان کے علاج معالجے کا بندوبست؛ سب اسی طرح ہوتا جس طرح گھر کے افراد کے لئے ۔
کسی کی بھینس کے بیمار ہونے پر ہمسایوں کی جانب سے تیمارداری کی جاتی اور خدانخواستہ کسی جانور کے مر جانے پر گاؤں کے افراد سمیت رشتے دار تعزیت کو آتے اور دکھ بانٹتے۔ اسی طرح جانور کی پیدائش پر بھی خوشی میں سب شریک ہوتے ۔ یہ بات درست کہ مادہ پرستی کے پروان چڑھنے سے اس کلچر میں کمی آتی جا رہی ہے لیکن آج بھی پاکستان کے دیہی علاقوں میں اور خاص طور پر دور دراز کے دیہی علاقوں میں یہ ماحول موجود ہے۔ جانور چاہے گھر میں ہو یا ڈیر ے پر ، اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب کتے، بلیاں، پرندے اور دیگر پالتو جانور، جن لوگوں نے پال رکھے ہیں، وہ بھی ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں علاج گاہیں بھی موجود ہیں اور ایسے جانوروں کے لئے خوراک وغیرہ کا بھی بندوبست ہو جاتا ہے۔
جانوروں کے حقوق کے حوالے سے ایک مسئلہ سامنے آ رہا ہے کہ لوگ اپنے جانور خصوصاََ گدھے گھوڑے اورکسی جگہ گائے بھینسیں کھلے چھوڑ دیتے ہیں جو بغیر کسی انسانی کنٹرول کے سڑکوں پر آوارہ پھرتے ہیں۔ ایسے جانور ہائی ویز کے درمیان بنی گرین بیلٹ پر چرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ انتہائی خطرنا ک چیز ہے ،جانور اور انسان دونوں کے لئے۔ جب کو ئی گاڑی کسی ایسے جانور سے ٹکراتی ہے توبڑا حادثہ پیش آتا ہے۔ اداروں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے اور اس سلسلے میں ایسے جانوروں کے مالکان کے لئے آگاہی مہم بھی شروع کی جانی چاہئے۔
ہمارے ہاں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ آوارہ بلیوں کتوں کا ہے۔ اس سلسلے میں نہ تو کوئی منظم ادارہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی پلاننگ۔ دوسری جانب لوگوں کی جانب سے ان پر بے جا تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ جانور اکثر زخمی حالت میں بھی پھرتے نظر آتے ہیں۔ زخمی جانوروں میں ٹریفک حادثات کا شکار ہوجانے والے جانور، خصوصاََ بوجھ اٹھاتے گھوڑے گدھے ،بھی شامل ہیں۔
ہمارے پاس انسداد بے رحمی مویشیاں جیساادارہ موجود ہے۔ اس کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہئے اور اس کا الحاق ریسکیو 1122 سے کرنا چاہئے جو سڑک پر جانور کو حادثہ پیش آنے کی صورت میں مخصوص ایمبولینس کے ذریعے اسے فرسٹ دینے اور ہسپتال منتقل کرنے کا انتظام کرسکے ۔ دوسری جانب ایسے اداروں کے پاس ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ انتہائی بری حالت کے شکار آوارہ جانوروں کو ریسکیو کرسکیں یالوگ ان تک پہنچا دیں اور پھر یہ اس کی دیکھ بھال کر لیں۔ اس سلسلے میں کچھ فلاحی تنظیمیں بھی کام کررہی ہیں، ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور مزید تنظیموں کو بھی آگے لانا چاہئے۔
اس دن کی مناسبت سے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جانور سانس لیتے ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں۔ ان کو تکلیف بالکل اسی طرح ہوتی ہے جیسے ہمیں۔ ہم اپنی خوراک، مال برداری، تحقیق اور حتیٰ کہ انٹرٹینمینٹ کے لئے ان جانوروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان جانوروں کے حقوق کا خیال بھی رکھیں۔ اگر کوئی جانور شوق یا کاروبار کی غرض سے پال رکھا ہے تو اس کی فطری ضروریات کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے اور اس کے لئے ہم جوابدہ بھی ہیں۔ دوسری جانب گلی محلوں میں پھرتے جانوروں کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور انہیں کھانے کو کچھ نہ کچھ دیتے رہنا چاہئے۔
ا گرچہ یہاں انسانوں کے حقوق پورے نہیں ہوتے اور ایک عام انسان ہی دوسرے عام انسان کے حقوق روندتا دکھائی دیتا ہے مگر ان حالات میں بھی جانوروں کے حقوق کی بات کرنے میں مضائقہ نہیں ۔
Tags: Animal Day