قربانی کا خراب گوشت، پولٹری کانفرنس اور ویٹرنری ڈاکٹروں کی قربانی
قربانی کا خراب گوشت، پولٹری کانفرنس اور ویٹرنری ڈاکٹروں کی قربانی
قربانی کا گوشت سنبھالنے اور کھال محفوظ کرنے کے طریقے اور جانور ذبح کرنے کے شرعی و سائنسی اصول
یہ کالم اکتوبر 2016میں لکھا گیا
قربانی کا خراب گوشت، پولٹری کانفرنس اور ویٹرنری ڈاکٹروں کی قربانی
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
یقیناََ قربانی کے گوشت سے پولٹری کانفرنس کا کوئی تعلق نہیں ۔۔ پولٹری کی اساس، مرغی کی تو قربانی بھی نہیں ہوتی ۔۔ گزشتہ کئی سالوں سے پولٹری انڈسٹری تو خود بہت سی قربانیاں دیتی آرہی ہے ۔ مرغی کے گوشت کے انتہائی کم ریٹ کی شکل میں قربانی، بیماریوں کے حملے کی شکل میں قربانی، بھاری ٹیکسوں کی قربانی، پرائیس کنٹرول والوں کے ہاتھوں قربانی اور خسارے کی دیگرصورتیں ۔۔ پولٹری انڈسٹری اتنی قربانیوں کے باوجود قائم و دائم ہے۔ اگرچہ ان دنوں بھی پولٹری انڈسٹری شدید مشکلات کا شکار ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل کم ریٹ کا سامنا اور فارمر ہے کہ اٹھ نہیں پا رہا۔ نقصان ، نقصان، ہر فلاک میں نقصان اور تسلسل کے ساتھ نقصان ۔۔ اس آس پر کہ آخر کوئی نہ کوئی فلاک تو سہارا دے ہی دے گا ، پولٹری فارمرز برداشت کئے جا رہا ہے۔ ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ مسلسل جھٹکو ں کے باوجود یہ انڈسٹری پاکستانی قوم کو معیاری اور سستی پروٹین فراہم کر رہی ہے۔ برگر میں دبے، پیزے پر ٹھہرے ، شوارمے اور رولز میں لپٹے، کوئلوں پربھنے اور کڑاہی میں پکے چکن کھانے والوں کو شاید یہ احساس نہیں کہ پولٹری انڈسٹری پاکستان کی کتنی بڑی خدمت کر رہی ہے۔
اس قدر شدید بحران کے باوجود البتہ اس انڈسٹری نے اپنی روایت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔لاہور میں انٹرنیشنل پولٹری ایکسپو کا انعقاد، وزیرِ تحفظِ خوراک کے ہاتھوں افتتاح ، ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کی شرکت، بین الاقوامی مندوبین کی آمد، پولٹری انڈسٹری کے اکابرین کی جانب سے مسائل کا ذکر ، وزیر تجارت کی اختتامی تقریب میں شرکت ، دونوں صاحبان کی مسائل کے حل کی یقین دہانی اور کانفرنس کا اختتام ۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال visitors کی تعدادکچھ کم تھی۔ پولٹری انڈسٹری کے مشہور تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالجبارعباسی نے بھی اپنی ایک تحریر میں اس جانب اشارہ کیا۔ ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ مسلسل نقصان کے باعث پاکستان کے پولٹری فارمرز کے حوصلہ شکنی ہے۔مزید انہوں نے مشورہ دیا کہ اس ایکسپو کے انعقاد میں بڑے گروپس کے ساتھ ساتھ دیگر سٹیک ہالڈز کی مشاورت کو یقینی بنایا جائے، ایکسپو کو ہر سال کی بجائے ہر دو سال بعد منعقد کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اس کو سستا سے سستا بنایا جائے تاکہ ہر طرح کا بزنس گروپ اپنی مصنوعات کی نمائش کر سکے۔ میرے نزدیک ایکسپو کا انعقاد بڑی اچھی روایت ہے ، اسے جاری رہنا چاہئے مگر ڈاکٹر عبدالجبار عباسی اور دیگر ماہرین کی سفارشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسے بہتر سے بہتر بنایا جانا بھی اس کی اہمیت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
رہی بات قربانی کے گوشت کے خراب ہونے کی تو اس کا تعلق پاکستان کے معتبر نجی اخبار کی ایک خبر سے ہے۔ خبر کے مطابق پنجاب میں کئی جگہوں پر کانگو وائرس کے خلاف مہم کے دوران Expired کیمیکلز کا سپرے کیا گیا جس کے باعث قربانی کا گوشت فریجوں میں پڑا جلد خراب ہوگیا۔ گوشت فریج میں پڑا خراب ہو سکتا ہے اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ فریج کی گیس پوری نہ ہو، یا لوڈ شیڈنگ نے فریج کو چلنے کا موقع ہی نہ دیا ہو، یا جس جانور کا گوشت ہے وہ پہلے ہی سے کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو، یا گوشت سنبھالنے کے دوران اسے آلودہ کر دیا گیاہو، یا گوشت بناتے وقت صفائی ستھرائی کاخیال نہ رکھا گیا ہو۔ لیکن یہ ممکن نہیں کسی کیمکل یا دوائی کا اثر جانور پر اس طرح ہو کہ اسے ذبح کرنے کے کئی دنوں بعد اس کا گوشت خراب ہو نے لگے۔ اگر تکنیکی معاملات میں رپورٹرز متعلقہ ماہرین سے رائے لے لیں تو اس طرح کی خبریں متنازع نہیں بنتیں۔ ہاں اس خبر میں اہم بات یہ ہے کہ کانگو مہم کے دوران محکمہ لائیوسٹاک نے زائد المعیاد کیمیکلز اور ادویات کا استعمال کیا اور جب اس بارے میں سیکرٹری لائیوسٹاک نسیم صادق سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ اس خبر کو گزرے ایک ہفتہ سے زائد ہو چکا ہے اور میں انتظار کرتا رہا کہ شاید محکمہ کا کوئی جواب آئے ،لیکن افسوس۔ محکمہ لائیوسٹاک پنجاب کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی معتبر اخبار میں چھپی خصوصاََ عوامی دلچسپی والی خبر وں کو سنجیدگی سے لے اور محکمہ کا کمیونیکیشن کا شعبہ اس بارے جواب دے تاکہ لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔ یقیناََ اس معاملے میں خاموشی اچھی حکمت عملی نہیں ہو سکتی۔ چند ذرائع سے، جو اگرچہ معتبر نہیں، مجھ تک یہ اطلاعات بھی پہنچی ہیں کہ کانگو سپرے کے دوران ویٹرنری سٹاف کو جلد کی الرجی کا مسئلہ پیش آیا۔ اس بارے انویسٹی گیشن ہونی چاہئے کہ آیا زائد المعیاد کیمیکلز اور ادویات کا استعمال ہوا یا نہیں ا ور محکمہ لائیوسٹاک پنجاب کو اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے ۔
قربانی کی بات ہو رہی ہے تو قربانیاں پاکستان بھر کے ویٹرنری ڈاکٹرز بھی دے رہے ہیں۔ کانگو کی مہم کے دوران خصوصاََ پنجاب کے سرکاری ڈاکٹروں نے شب ورز کی محنت سے سپرے کیا اور چیک پوسٹوں کے قیام کے ذریعے جانوروں کی آمدورفت کی مانیٹرنگ کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کے لئے بھی محکمہ کی سرگرمیاں نظر آتی رہیں۔ کانگو بخار ہو یا ریبیز اس طرح کی بہت سی بیماریاں ہیں جو جانوروں سے انسانون میں منتقل ہو کر جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں اورایسی بیماری میں مبتلا جانور کا سب سے پہلے سامنا ویٹرنری ڈاکٹر کرتا ہے۔ اگر اس طرح کے جانوروں کا علاج نہ ہو تو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بیمار جانور کے علاج سے جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی خدمت بھی ہور رہی ہوتی ہے کہ خوراک سمیت دیگر کئی انسانی ضروریات کا تعلق جانوروں سے ہے۔کانگو وائرس کے ایشو سے اس بات کا اندازہ بڑی اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح یہ ویٹرنری ڈاکٹر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرقوم کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ حکومتِ پنجاب اور دیگر صوبائی حکومتیں سرکاری ویٹرنری ڈاکٹرز کے کو جلد از جلد منظور کرے۔