فیس بک پر تنقید ۔۔ طلباء یونیورسٹی سے فارغ
فیس بک پر تنقید ۔۔ طلباء یونیورسٹی سے فارغ
فیس بک پر تنقید ۔۔ طلباء یونیورسٹی سے فارغ
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
بجٹ آیا،دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ لائیوسٹاک سیکٹر سے بھی اس کے تعلق کی بنا پر کچھ بات کرنا چاہتا تھا۔ کام اسی پر کر رہا تھا مگر فیصل آباد سے آنے والی ایک خبر نے موضوع سے ہٹا دیا۔ خبرصوبائی وزیر رانا ثناء اللہ یا وزیرِ مملکت عابد شیر علی سے متعلق نہیں تھی، نہ ہی اس کا تعلق گھنٹہ گھر کے کسی بازار سے تھا، ٹیکسٹائل کے کسی شعبہ میں بھی کچھ اہم نہیں ہوا تھا۔خبر فیصل آباد کی ایک یونیورسٹی سے متعلق تھی ۔ انتہائی چھوٹی حرکت ۔۔ مگر پاکستان کے بہترین اداروں میں شمار ہونے کا دعویٰ کرنے والی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ہو جانے کی وجہ سے ۔۔ بہت بڑی خبر بن گئی تھی۔ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، فیصل آباد نے کچھ طلباء کو فارغ کر دیا ۔ الزام کہ سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں اور بیانات کے ذریعے یونیورسٹی کو بدنام کرتے ہیں اور دوسرے طلباء و طالبات کو یونیورسٹی کے بارے منفی تاثر دے کر گمراہ کرتے ہیں ۔
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں طلباء و طالبات نے فیس بک پر بہت سے پیجز بنارکھے ہیں۔ کچھ پیجز یونیورسٹی کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا پرچار کرتے ہیں، کچھ یونیورسٹی سے متعلق جنرل انفارمیشن لوگوں تک پہنچاتے ہیں، کچھ سابق طلباء و طالبات کو آپس میں جوڑے رکھنے کی غرض سے بنائے گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان پیجز کے ساتھ ساتھ ایک ایسا پیج بھی ہے جو مبینہ طور یونیورسٹی میں ہونے والی منفی سرگرمیوں کوپھیلاتا ہے۔ یہاں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ہونے والی ناانصافیوں کو منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ کرپشن سکینڈلز سامنے لائے جاتے ہیں۔ انتظامیہ کے فیصلوں پر کھل کر رائے دی جاتی ہے۔ خاص طور پر اس پیج پر یونیورسٹی کے وائس چانسلر محترم پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کو اپنے سیاسی اثرور سوخ کی بنا پر مسلسل وائس چانسلر بننے اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
Roznama UAF نامی اس پیج پر یونیورسٹی سے طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ فیصل آباد کے عام شہریوں اور صحافیوں کی بڑی تعداد بھی منسلک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پیج کو چلانے والے اس قدر خفیہ انداز میں اپنا کام کر رہے ہیں کہ کسی کو ان کا علم نہیں۔ جن طلباء کو یونیورسٹی سے فارغ کیا گیا ہے ان کے بارے بھی یونیورسٹی کے پاس مبینہ طور پر ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ بوکھلاہٹ کی شکار انتظامیہ نے ان نوجوانوں کی اردو ٹائپنگ میں مہارت اورپیج پر مسلسل Likes اور Comments کرنے کی وجہ سے شک کرتے ہوئے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس ایکشن سے دوسرے لوگ ڈر جائیں۔
پرانے لوگ اصل میں اس بات کو سمجھ نہیں رہے کہ طاقت اور دولت کے ذریعے ہر چیز کو manage نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اخبار کا دور گزر گیا جب کچھ ضمیر فروشوں کو خرید لیا جاتا اور کچھ کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا جاتا ۔ انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آ رہا کہ ”میڈیا مینجمنٹ” کے ذریعے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو تو کچھ حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ تعلقات ، مفادات اور اشتہارات جیسے حربے کارگر ثابت ہوتے ہیں مگر سوشل میڈیا ایسا ہے کہ اس کا توڑ نہیں۔اس نے بڑی بڑی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔اخبار کی خبر تاریخ کے بدلنے تک زندہ رہتی ، الیکٹرانک میڈیا کی خبر کچھ گھنٹے چلے گی اور پھر ختم۔مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک خبر چھپنے کے بعد کئی ہزارد دفعہ چھپتی ہے، ایک ویڈیو چلنے کے بعد کئی لاکھ دفعہ چلتی ہے۔ سوشل میڈیا نے نہ صرف خبر کی زندگی میں اضافہ کر دیا بلکہ اس تک رسائی کو بھی آسان بنا دیا۔ اس سے صرف طاقتور لوگ ہی تنگ نہیں بلکہ خود میڈیا اور اس کے بڑے بڑے صحافی اور کالم نگار بھی پریشان ہیں۔ اب کسی بھی اخبار یا چینل پر لگنے والی خبر پر ردعمل دینے کے لئے کوئی شخص چینل یا اخبار کا مرہون منت نہیں رہا۔خبر کے اثر کا انحصار سوشل میڈیا کے ردعمل پر ہوگیا ہے۔ ایک کالم نگار کے کالم پر لاکھوں ایسے تجزیے لکھ دیے جاتے ہیں جو بے باک بھی ہوتے ہیں اور بے لاگ بھی۔ فائدہ یہ ہو گیا کہ صحافیوں اور کالم نگاروں کو بھی مواد کے انتخاب میں محتاط ہونا پڑ گیا ہے۔
اب واپس یونیورسٹی پر آجاتے ہیں۔اگر یونیورسٹی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح کے بچگانہ فیصلوں کے ذریعے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروایا جا سکتا ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ انتظامیہ کے اس ایکشن کی وجہ سے نہ صرف اس مخصوص پیج کی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ اس پر موجود مواد کئی جگہ چھپاہے۔ یہ کوئی اخبار تو ہے نہیں کہ جسے آپ اپنے سیاسی اثرو رسوخ سے بند کروا دیں گے نہ ہی یہ کوئی صحافی یا میڈیا ہاؤس ہے کہ جسے آپ خرید لیں گے یا ڈرا دھمکا دیں گے۔ آپ ایک پیچ بند کریں گے دس اور کھل جائیں گے۔ آپ چار لڑکوں کو روکیں گے ، ہزاروں اور لوگ آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔ اگر آپ پر کوئی شخص تنقید کرتا ہے یا آپ کے کرپشن کے سکینڈل سامنے لاتا ہے تو آپ نہ کرپشن کریں، نا انصافیوں سے باز آ جائیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہونے والی تنقید فضول ہے اور ہم لوگ بڑے پاک صاف ہیں تو پھر اپنا ایک سوشل پیج بنا کر اس پر بے گناہی کے ثبوت لوگوں کو دیکھا ئیں۔ زبانیں بند کرنے سے کرتوتیں نہیں چھپا کرتیں۔
تعلیمی ادارے تو طلباء کو برداشت سیکھاتے ہیں، ان میں تحمل پیدا کرتے ہیں، انہیں دوسروں کی رائے کے احترام کا درس دیتے ہیں، تنقید کو اصلاح کا ذریعہ سمجھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہاں پر ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اورعمر کے پختہ افرادکے تحمل کا یہ عالم ہے کہ تنقید کرنے پر انتقامی کارروائی پر اتر آئی اورایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔ ہو سکتا ہے کہ یونیورسٹی کچھ دنوں میں ان نوجوانوں کی سزا ختم کرنے پر مجبور ہو جائے مگر اس عمل سے انتظامیہ کی جو جگ رسائی ہوئی ہے اس سے اس ادارے کے وقار کو خوب نقصان پہنچایا ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ کوئی محسوس نہ کرے یا طاقت کے نشے نے یہ صلاحیت ہی ختم کر دی ہو۔
جب تک اداروں میں کرپشن اور بد انتظامی کے واقعات ہوتے رہیں گے، وہ منظر عام پر آتے رہیں گے۔ ادارے انہیں منظر عام پر لانے والوں کوتلاش کرنے اور ان سے انتقام لینے پر اپنی توانائی ضائع کرنے کی بجائے اپنے معاملات کو درست کرنے پر توجہ دیں۔ ایک سوشل میڈیا کا پیج بند کرنا یا دو چار لوگوں کو سزائیں دے دینا مسئلے کا حل نہیں۔کرپشن، بد انتظامی، ناانصافی، اقربا پروری، سیاسی پشت پناہی اور میرٹ کے قتلِ عام سے جان چھڑانا مسئلے کا حل ہے۔