گرم علاقوں میں تھیلریوسس کی اہمیت ۔ ڈاکٹر محمد راشد
Economic Significance of Tropical Theileriosis on a Holstein Friesian dairy farm in Pakistan.
خصوصی رپورٹ انٹرنیشنل پیراسائٹالوجی کانفرنس ۔۔ روزنامہ آفتاب، ویٹرنری میٹرز
گرم علاقوں میں تھلیریوسس کی اہمیت
محمد راشد (ایم فل یو وی اے ایس) پی ایچ ڈی سکالر(لانجوویٹرنری رسرچ انسٹیٹوٹ چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز چائنہ)
Economic Significance of Tropical Theileriosis in Urdu
پاکستان میں لائیوسٹاک سیکٹرانسانی خوراک کی ضروریات پوراکرنےمیں اہم کردار ادا کر رہاہے ۔ڈیری فارمرززیادہ پیداوارکےحصول کے لیےولائتی نسل کے جانوروں کےپالنے کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ پاکستان کے گرم ماحول کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس گرم ماحول میں انہیں رکھنے کےلیے بہت سی جامع اقدامات کرنی پڑتی ہیں جوکہ بہت مہنگی پڑتی ہیں جوکہ فارمرز کے حصول نفغ کے خوابوں کوخاک میں ملادیتے ہیں یہ ولایتی نسل کے جانور زیادہ پیداواردینے اورماحول کے برے اثرات سے دباؤمیں رہتے ہیں جسکی وجہ سے ان جانوروں میں بہت قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ہم یہاں صرف ولایتی جانوروں کی ایک خاص بیماری تھیلرپرسیس کو زیر غور کریں گے اس بیماری سے نہ صرف ولایتی نسل کے بچھڑوں بلکہ دودہیل جانور بھی متاثرہوتے ہیں۔بروقت علاج نہ کرنے سے یہ بیماری بچھٹروں کی امواتکا باعث بنتی ہے اور ساتھ ہی بڑےجانوروں میں کچھ حد تک اموات اور زیادہ تر علامات نہ ہونے کے ناطے دودھ کی پیداوارکو متاثرکرتی ہیں جو کہ بظاہردکھائی نہیں دیتا۔
Research in Pakistan
حال ہیں میں میں نے اپنی ایم فل کی تحقیق ماہر ڈاکٹرز پروفیسرڈاکٹر عمران رشیدڈاکٹرہارون اکبر ڈاکٹر خالد سعید اور ڈاکٹر لیاقت احمد کی سربراہی میں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسزکے زیر اہتمام داجل تحصیل جامپورضلع راجنپورکے ایک ولائتی نسل کے جانوروں پر مشتمل فارم پر منغقدکی۔ہماری اس تحقیق کا مقصد تھیلریوسس کی وجہ سے دودہیل جانوروں میں ہونے والے نقصانات کاجائزہ لینا تھا۔ ہم نے اپنی اس تحقیق کے نتیجے کو انٹرنیشنل جرنل “دی جرنل آف پیراسایٹالوجی”امریکن سوسائٹی آف پیراسایٹالوجی میں کے نام سے شائع کیا ہے۔اس بیماری کے نقصانات جاننے کے بعد میں نے اس مسلے کے حل پر غورکیا۔
Research in China
اس کوعملی شکل میں لانے کے لیے میں نے اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق لانجوویٹرنری رسرچ انسٹیٹوٹ چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرسائنسز چائنہ کے زیر اہتمام اس بیماری کی موثرروک تھام پر کام کرنا شروع کیا۔اس کے لیے میں نے تھیلریااینولیٹامایکرو شایزونٹزسے متاثر بی سیل مونوسایٹز ڈینڈریٹک سیلزاورپی بی ایم سیز کی مختلف سیل لائنز چودہ ماہ کی مسلسل محنت سے تیار کرلی ہیں۔یہ تمام قسم کے سیلز ایک خاص ماحول مہیا کرنے سے مسلسل بڑھتے اور تقسیم ہوتے رہتےہیں انکی تعداد تقریباًہر تیسرے دن دگنی ہو جاتی ہے ۔اسی طرح مسلسل تقسیم کے عمل سے اس میں موجود جراثیم بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں جنکو اسی جنریشن کے بعد پراسیس کرکے اس بیماری کے خلاف ویکسین کے طورپر استعمال کر سکتے ہیں اس سے پہلے پی بی ایم سیز کی سیل لائن سے ویکسین مختلف ملکوں میں بنائے جا رہے ہیں جو کے مؤثر ہیں بی سیل چونکہ قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں اور ان کی سیل لائن سے بہتر قسم کی ویکسین تیار کی جاسکتی ہے جس پر کام کرنا ابھی باقی ہے کہنےمیں یہ کام بہت آسان ہےلیکن کرنے میں مشکل اور حساس ہے جس کے لیے ایک الگ سا سیٹ اپ چاہیے جہاں بائیو سکیورٹی کی تمام ایس او پی کوملحوظ خاطر رکھا جائے مستقبل قریب میں اگر موقع ملا تو یہ کام پاکستان کر کے لائیو سٹاک میں ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
محمد راشد (ایم فل یو وی اے ایس) پی ایچ ڈی سکالر(لانجوویٹرنری رسرچ انسٹیٹوٹ چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلجر سائنسز چائنہ)
Rashidkhan.laghari@gmail.com
drrashid1078@yahoo.com
One Comment
It is really a nice and useful piece of information. I¦m happy that you shared this useful info with us. Please stay us informed like this. Thank you for sharing.