ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز سے ادارتی تعلق — جو ٹوٹ گیا
Editor Veterinary News and Views | ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز سے ادارتی تعلق ۔۔ جو ٹوٹ گیا
مضامینِ نو ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
مافیا ز کے خلاف آواز اٹھانا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنا، آسان نہیں ہوتا۔ تنہا ہی لڑنا پڑتا ہے کہ جن کی ذمہ داری ہوتی ہے آواز اٹھانے کی وہ خواہش نہیں رکھتے اور جن کے لئے آواز اٹھائی جا رہی ہو، ان کی کپیسٹی نہیں ہوتی ساتھ دینے کی ۔بس اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی عنایت کردہ ہمت ہی سہارا بنتی ہے ۔ ہاں لیکن پھر بھی قربانیاں ضرور دینا پڑتی ہیں ۔
ویٹرنری ایسوسی ایشن کے مسائل اور ویٹرنری ڈاکٹرز کے مسائل سے متعلقہ کالم اور ویڈیوز
ضروری نہیں ہوتا کہ جو خاموش رہے وہ مافیا ہی کا حصہ ہو کہ بعض دفعہ مصلحتیں، بعض دفعہ اداروں کا بچاؤ ، بعض دفعہ ذاتی تعلقات اور بعض دفعہ انسان کی عمر آڑے آ جاتی ہے۔ اور پھر صحافت کرنے اور اخبار چلانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ لکھنے والے نے تو بس ہمت کرنا ہوتی ہے جبکہ اخبار کے مالک نے ساتھ میں ادارہ بھی چلانا ہوتا ہے اور اسے بچانا بھی۔
ممکن تھا کہ خاموش رہتا مگر پھر لکھنا ضروری سمجھا کہ خاموشی سے افواہیں جنم لیتی ہیں اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بجائے یہ کہ حلقہ بہ حلقہ بدلتی کہانیاں زیرِ بحث آتیں ، خود ہی حقائق بتادینا بہتر سمجھا۔
بات 2009کی ہے یا غالباََآٹھ کی ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا اولڈ سینٹ حال تھا۔ ’’چراغ خون کے جلاؤ بڑے اندھیرے ہیں‘‘ سید علی عباس کے ایک شعر کا مصرعہ، اسی کو چنا بطور عنوان ایک تقریری مقابلے کے لئے ۔ تقریب ہوگئی اور امید سے بہت بہتر ۔ اختتام پر مرحوم پروفسر ڈاکٹر محمد صدیق، جو اس وقت فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس کے ڈین تھے اور ساتھ میں پولٹری انڈسٹری کا ایک بڑا نام بھی۔ فرمانے لگے کہ ایونٹ کی رپورٹ تیار کرو، اخباروں میں بھیجیں گے۔ ایک ہفتے کی محنت سے رپورٹ تیار ہوئی ۔ ڈاکٹر محمد ارشاد، جو اس وقت آرٹ اینڈ لٹریری سوسائٹی (ALS)کے ایڈوائزر تھے اور ساتھ میں سوسائٹی کے بانی بھی، کو پڑھ کر سنانے اور تحریر کو مزید نکھارنے کے بعد ڈین آفس ڈاکٹر صدیق صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ڈین صاحب نے کاغذ پکڑے اور سامنے بیٹھے ایک شخص کے حوالے کئے، یہ کہتے ہوئے کہ ’’اخبار والے تو کول ہی بیٹھے نیں‘‘ ۔۔ غالباََ ڈاکٹر آصف بٹ تھے۔
اگرچہ اس سے پہلے دو کتابیں لکھ چکا تھا مگر تدریسی، جنہیں خالد بک ڈپو (پائلٹ سپرون آئینہ) نے چھاپا؛ البتہ کسی اخبار میں یہ پہلی تحریر تھی۔ ایک دن سٹینڈ پر لگے اخبار سے پی ٹی سی ایل نمبر لیا اور دفتر فون کیا۔ آواز آئی ’’ میں ڈاکٹر خالد شوق، اپنے دفتر میں موجود نہیں ، بعد میں کال کروں گا‘‘۔ پھر کال واپس آئی اور بات ہوئی۔ پھر ایک دن سمن آباد دفتر میں چلا گیا۔ ایک خوف ضرور تھا کہ معلوم نہیں کیسا رد عمل ملے گا۔ خیر شوق صاحب نے بہت appreciate کیااو ر خوب حوصلہ افزائی کی۔
یہاں سے پھر صحافت کا آغاز ہو گیا۔ ہر تقریب کی خبر اخبار کو بھیجنے لگا۔ اس سے آگے فیصل آباد پریس کلب کے چکر لگنے لگے اور اخباروں کے دفاتر سے تعلقات بھی بننے لگے۔ پھر ہر خبر قومی اخبارات کی زینت بھی بننے لگی۔ جب انٹرنشپ پر گیا تو بغیر کسی خواہش کے اخبار کے ہیڈر پر ڈپٹی ایڈیٹر کی جگہ میرا نام لکھا گیا۔ پھر ڈگری کے اختتام پر یہ خود بخود ایڈیٹر میں بدل گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خبر کا دائرہ کار قومی معاملات تک بڑھتا گیا۔ پھر ماہ بماہ کے عنوان سے ماہانہ مضمون کا آغاز ہوا، پھر قومی اخبارمیں لکھنے کا سلسلہ اور پھر باقاعدہ کالم نگاری ،پھر ایک کتاب کی اشاعت اور پھر دوسری کی اور اب تیسری کی تیاری۔
لکھاری اور اخبار کی پالیسی کا ٹکراؤ، کوئی نئی بات نہیں ۔ ایڈیٹر کا اخبار کی پالیسی کے برعکس چلنا اور پھر الگ ہوجانا ، یہ بھی نیا نہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک ہی اخبار میں لکھنے والے سب لوگوں کی سوچ یکساں ہوکہ اختلافِ رائے سب کا حق ہے۔ہاں اگر رائے کا یہ اختلاف اخبار کی پالیسی سے متصادم ہو اور اس میں تسلسل قائم ہوجائے تو پھر تعلق خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ بہت سے کالم سینسر ہوئے ۔ خیر کچھ وقت تو ایسے چلتا رہا مگر جب میرے کالم کچھ لوگوں کی نیندیں حرام کرنے لگے، توپھر اخبار کے ہیڈر پر میرے نام کا رہنا ممکن نہ رہا ۔
باہمی مشاورت سے آخر فیصلہ یہی ہوا کہ اخبار کے ایڈیٹر کی جگہ میرا نام نہ لکھا جائے تاکہ میں اور اخبار دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہو جائیں ۔ پھر میرا نام اخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہٹا دیا گیا۔ یہ فیصلہ اخبار کی ساکھ کے لئے درست ہے یا غلط، یہ تو خیر وقت ہی بتائے گا لیکن کم از کم اس سے بہت سی چیزیں واضح ضرور ہو گئیں جن کاذکر کرنا یہاں مناسب نہیں۔
واضح رہے کہ ہفت روزہ ویٹرنری نیوز اینڈ ویوز کے مالی معاملات ،اشتہارات اور مارکیٹنگ وغیرہ سے کبھی بھی میرا تعلق نہیں رہا اور نہ ہی اخبار سے میں نے کبھی کوئی معاوضہ وصول کیا۔ یہ ایک اعزازی تعلق تھا جو تقریباََ سات سال رہا اور پھر ٹوٹ گیا۔ لیکن ایک بات واضح رہنی چاہئے کہ اگرچہ اخبار کا اور میری اعزازی ادارت کا تعلق ختم ہو گیا ہے مگر شوق صاحب سے جو احترام کا تعلق اور باہمی تعاون کا رشتہ اس سے پہلے تھا، آج بھی ویسا ہی ہے۔ اگرچہ ایڈیٹر نہیں مگر آج بھی میں اخبار کا حصہ ہوں اور میرے کالم اور خبریں باقاعدگی سے چھپتی ہیں اور چھپتی رہیں گی۔
یہاں ایک بات اور واضح کر دینی بہت ضروری ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اخبار کے ہیڈر سے نام ہٹ جانے سے ویٹرنری پروفیشن کے گاڈ فادرز اور مافیاز کے کرتوت چھپے رہیں گے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔اگرچہ اخبار کی اپنی ایک حیثیت اور وقعت ہوتی ہے مگر اس کے علاوہ بیسیوں پلیٹ فارمز موجود ہیں آواز اٹھانے کے لئے جو اخبار سے بہتر بھی ہوتے ہیں اور اثر بھی چھوڑتے ہیں ؛اور جن کواخبار کے ساتھ ساتھ اب استعمال میں لایا بھی جائے گا۔ چند دنوں میں کچھ ایسا آنے والا ہے جو تہلکا خیز بھی ہو گا اورمؤثر بھی۔
تحریر شعور اجاگر کرتی ہے، احساس دلاتی ہے، بیداری پیدا کرتی ہے اور سوچنے کے انداز بدلنے پر مجبور کرتی ہے۔ نہ تو کسی کو ہٹانا یا لاناکسی قلم کار کا کام ہے اور نہ ہی کسی کے آنے یا جانے میں اس کی جیت یا ہار ہوتی ہے ۔ لکھنا اور لکھتے رہنا ہی ایک لکھاری کی اصل جیت ہے ۔ میرا کام لکھنا اور ایکسپوز کرنا ہے اور ایسا انشاء اللہ ہوتا رہے گا۔