کھلے دودھ کے خلاف منظم مہم درست اقدام نہیں (ڈاکٹر جاسر آفتاب)۔ روزنامہ نئی بات
Packaged Milk Vs Fresh Milk. Campaign against Fresh loose milk at Electronic Media by Pakistan Medical Association
کھلے دودھ کے خلاف اشتہاری مہم اور مافیا ۔۔ مضامینِ نو، ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
کمپنیاں ڈیری فارمرز کو کیسے تباہ کرتی ہیں؟ پاکستان کے ڈیری سیکٹر پر کارپوریٹ حملے کی تفصیلات
کھلے دودھ کے خلاف منظم مہم درست اقدام نہیں (ڈاکٹر جاسر آفتاب) روزنامہ نئی بات
دودھ ہمارے ملک میں لگژری آئیٹم نہیں، یہ بنیادی ضرورت ہے اور ہر گھر کی ضرورت ۔ اچھی بات کہ دودھ کو پاسچرائزیشن یا پراسیسنگ کے بعد کسی پیکٹ یا ڈبے میں بکنا چاہئے مگر چند بیورکریٹس کے دستخطوں کے بعد چند ہفتوں میں یہ ہو جانا ممکن نہیں اور نہ ہی پاکستان کے تمام طبقوں کے لئے اس اصول کو لاگو کرنا قابلِ عمل ہے۔ ائر کنڈشنوں میں سونے والے، گاڑیوں میں گھومنے والے اور شیشوں میں کام کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی ملک ہے جہاں کی بہت بڑی تعداد اور غالب تعداد ایسی ہے جس کے پاس دودھ خرید کر اسے ابالنے کی غرض سے درکار آگ کے لئے سلنڈر میں گیس ڈلوانے یا لکڑیاں خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہوتے اوریہ پاسچرائزڈ ، پروسیسڈ اور پیک دودھ کی قیمت کیسے ادا کر سکیں گے ۔ ہاں لگا دے حکومت پراسیسنگ پلانٹ اور سبسڈی کے ذریعے اس کا آغاز کر دے چند شہروں سے ،پھر کھلے دودھ کی فروخت کو بتدریج کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہونی چاہئے کہ پراسیس یا پیک کرنے والا دودھ اصل اور قدرتی ہو اور یہ ہمارے فارمرز کی گائے، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹنی وغیرہ سے حاصل کیا گیاہو ۔
ایک اشتہار ٹیلی ویژن پر چل رہا ہے ۔۔ دو ڈاکٹر اس میں بطور دانشور اور قوم کا درد لئے، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے بینر تلے دودھ کی کوالٹی پر بات کرنے کی آڑھ میں ڈبے والے دودھ کو پروموٹ کر رہے رہیں۔ بطور میڈیکل ایکسپرٹ کسی ڈاکٹر کا ایک قسم کی پروڈکٹ سے متنفر کرتے ہوئے دوسری پروڈکٹ کو پروموٹ کرنا اور اس سے مارکیٹ سسٹم پر اثر انداز ہونا ہر گز مناسب نہیں۔
خوبصورت پیکٹوں میں مقید جعلی کیچپ، جعلی جام، جعلی جوس، جعلی مکھن، جعلی آئس کریم اور جعلی ادویات پر تو ان دو چار ڈاکٹروں کو عوام کی صحت کا خیا ل نہیں آتا لیکن بد قسمتی سے تازہ اور کھلے دودھ کو، کوالٹی کے نام پر، ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ۔ لگتا ہے کہ دیسی گھی کی طرح اب قوم کو اصل اور قدرتی دودھ سے ہٹا کر فیبریکیٹڈ دودھ پر لگانے کی منظم تیاری ہو رہی ہے۔ بہت ضروری ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ یہ ڈاکٹر ایسا کیوں کر رہے ہیں اور ان اشتہارات کے لئے فنڈنگ کہاں سے آ رہی ہے؟
اشتہار کے مطابق ڈبے والی کمپنیوں میں جانوروں کی خوراک کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ گزارش یہ ہے کہ ان ڈبے والی کمپنیوں کے اپنے کتنے فارم ہیں؟ اور کیا یہ اپنے فارموں کی پیداوار سے ملکی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں؟ ان میڈیکل پروفیشنلز کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ ڈبہ بند دودھ والی کمپنیوں نے اگراصلی دودھ پیک کرنا ہو تو انہیں دودھ آسمان سے نہیں لانا پڑے گا بلکہ ہمارے روایتی فارمرز سے ہی حاصل کرنا ہو گا۔لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ بھی ہے کہ جو چیز ڈبے میں بند ہوتی ہے کیا وہ جانوروں سے حاصل ہونے والا ہی دودھ ہوتا ہے ؟ ان میڈیکل ایکسپرٹس یا کسی اور ادارے کو ڈبے والا دودھ بیچنے والوں سے یہ پوچھنا چاہئے کہ جو دودھ وہ ڈبے میں بند کرتے ہیں وہ کہاں سے آتا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ گائے ، بھینس ، بھیڑ ، بکری یا اونٹنی سے حاصل ہونے والے دودھ کی کوالٹی پر بات کی جائے؛ اس میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے؛ جعلی دودھ بنانے والوں کو آڑھے ہاتھوں لیا جائے؛ خشک دودھ کو پانی میں گھول کر اور پھر دودھ کے نام پر بیچنے والوں کے خلاف عَلم بلند کیا جائے؛ یا پھر لائیوسٹا ک سیکٹر کی بہتری یا فارمرز کی تربیت کی بات کی جائے ۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب نہیں ہو گا کیونکہ اس سے اصل اور حقیقی دودھ کی پروموشن ہو گی ۔ ہاں چند مفاد پرست عناصر کے لئے قدرتی اور حقیقی دودھ کو ضرور ٹارگٹ کیا جائے گا۔
اس اشتہار کا حصہ بننے والے ڈاکٹروں کو لگتا ہے کسی جگہ سے مس گائیڈ کیا گیا ہے۔ ان ڈاکٹروں کو محکمہ لائیوسٹاک اور یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز لاہور سے بریفنگ لینی چاہئے۔ ویٹرنری یونیورسٹی نے دودھ کی کوالٹی کے حوالے سے ایک پالیسی پیپر جاری کر رکھا ہے۔ اس پالیسی پیپر کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں خشک دودھ اور وے پاؤڈر کی امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان میڈیکل ایکسپرٹس کے ساتھ ساتھ اس قوم کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں لائیوسٹاک کی موجودگی اور اس کی پیداوار کے ہوتے ہوئے اتنی بڑی مقدار میں جو خشک دودھ اور وے پاؤڈر آ رہا ہے اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے۔ ان ڈاکٹروں کو اس بات کا بھی پتہ لگانا چاہئے کہ یہ خشک دودھ کون منگواتا ہے اور ایک اشتہار اس خشک دودھ کے خلاف بھی جاری کر نا چاہئے ۔
اگر ان میڈیکل پروفیشنلز کو قوم کی صحت کا اتنا ہی خیا ل ہے تو دو کام کریں ۔ پہلا یہ کہ ڈبے والے دودھ کی کمپنیوں کے باقاعدگی کے ساتھ پراڈکشن آڈٹ کروانے کا مطالبہ کریں۔ مثال کے طور پر اگر ایک کمپنی روزانہ بارہ لاکھ لیٹر دودھ سیل کرتی ہے ڈبے کی شکل میں، تووہ یہ بتائے کہ یہ بارہ لاکھ لٹر دودھ کہاں سے آتا ہے ۔ دوسرا کام یہ کریں کہ جو خشک دودھ امپورٹ یا مبینہ طور پرسمگل ہو کر مختلف ذرائع سے پاکستان میں آتا ہے اس پر پابندی لگانے کے لئے شور مچائیں۔ لیکن، معذرت کے ساتھ، پاکستان کے ڈیری پروڈکشن سسٹم کو تباہ کرنے اور پھر باہر سے خشک دودھ منگوا کر اسے پانی میں گھول کر قوم کو پلانے کی خواہش رکھنے والوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔