ہارمون پر پابندی اور کراچی ڈیری فارمنگ کا بحران
Ban on RBST, Boston and Somatech | Effects on Dairy farming in Karachi and other overall dairy industry of Pakistan | ہارمون پر پابندی اور کراچی ڈیری فارمنگ کا بحران
کسٹمز کی کارروائی، مویشیوں کے لئے ممنوعہ ہارمونز والے انجکشن ضبط
ہارمون پر پابندی اور کراچی ڈیری فارمنگ کا بحران
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
rBSTایک متنازع پراڈکٹ جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں متنازعہ ہے ۔ جنیٹک انجینئرنگ کی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ اس ہارمون کا استعمال دودھ کی پیداوار میں اضافے کے لئے ہے ۔ماہرین کی رائے اس کے حق میں بھی ہے اور خلاف بھی۔ کچھ اس کے استعمال کو انسانی صحت کے لئے مضر سمجھتے اور کچھ اسے جانور کی تباہی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ دونوں میں نقصانات کی وجہ سے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔دوسری جانب اس کے کاروبار سے منسلک لوگ اور ادارے ماہرین کی ریسرچ کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور اس ہارمون کے استعمال کو دودھ کی زیادہ پیداوار کے لئے ایک اچھی پراڈکٹ کے طور پر مارکیٹ کرتے ہیں۔ Recombinant Bovine Somatotropin (rBST) امریکی ادارے Food and Drugs Administration (FDA) سے تو منظور شدہ ہے اور امریکہ میں اس کا کمرشل استعمال بھی کیا جاتاہے مگر یورپ اور کینیڈاسمیت دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں اس کے استعمال پر پابندی ہے ۔جن ممالک میں اس کا استعمال ہو بھی رہا ہے وہاں بھی یہ زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ پاکستان میں بھی اس ہارمون بارے ماہرین کی دو رائے ہے مگر اس کا استعمال ہوتا رہا اور سندھ اور خصوصاََ کراچی شہر اس کی بڑی مارکیٹ بن گیا۔
controversial ہونے کی وجہ سے اس ہارمون کے خلاف حکومتِ پنجاب کی جانب سے آواز اٹھائی گئی اور پنجاب میں اس کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ اس دوران اس ہارمون سے متعلقہ کاروباری اداروں نے خوب جنگ لڑ ی جس کے نتیجے میں استعمال سندھ میں جاری رہا۔ چند روز قبل سپریم کورٹ کی معزز عدالت نے اس ہارمون پر مکمل پابندی لگا دی ہے جس کے بعد اس کا استعمال اور کاروبارمکمل طور پر بند ہو گیا ہے ۔
چونکہ جانوروں میں پچھلے کئی سالوں سے استعمال ہونے کی وجہ سے کراچی کی ڈیری فارمنگ کے بڑے حصے کا انحصار اس ٹیکے پر تھا ، اب اس پر پابندی لگنے سے ڈیری کے کاروبار کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس ہارمون کے بند ہونے سے جانوروں کی پیداوار کافی نیچے آئی ہے جس سے کاسٹ آف پروڈکشن میں اضافہ ہو گیا ہے اور دودھ کی قیمت انتظامیہ کی جانب سے متعین ہونے کی وجہ سے کراچی کے ڈیری فارمرز نقصان کے ساتھ دودھ بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس شدید پریشانی کی حالت میں اگر ڈیری فارمرز کو سپورٹ نہ کیا گیا تو پروڈکشن سسٹم بری طرح متاثر ہوں گے اور بالآخر بند ہونا شروع ہو جائیں گے۔
اہم اور بنیادی ذمہ داری حکومتِ سندھ کے محکمہ لائیوسٹاک کی ہے۔ پیچھے تو ان ٹیکوں کے سہارے پیداوار لی جاتی رہی مگر اب ویٹرنری سروسز اور ہزبنڈری پریکٹسز کا بنیادی کردار ہو گا اور اس کے لئے حکومتِ سندھ کے محکمہ لائیوسٹاک کو حقیقی معنوں میں کام کرنا پڑے گا اور سنجیدگی سے کرنا پڑے گا۔ کسی بھی جانور کی بہتر پیداوار کے لئے اس کی خوراک ، مینجمنٹ اور ماحول پر توجہ دینا ہوتی ہے اور اب کراچی کے ڈیری فارمرز کو بھی اسی جانب توجہ دینا ہو گی۔ فارمرز کو چاہئے کہ وہ اپنے جانوروں کی بہتر نگہداشت اور بہتر خوراک کے لئے محکمہ پر انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیپنڈنٹ ایکسپرٹس کی بھی رائے لیں ۔
یہ ممکن نہیں کہ ہارمون کے عادی جانوروں کی خوراک اور مینجمنٹ بہترکر کے چند دنوں میں پیداوار واپس حاصل کر لی جائے، اب اس پر وقت لگے گا۔ ان حالات میں فارمرز کی ہنگامی بنیادوں پر مدد ضروری ہے ۔سب سے بڑا مسئلہ سندھ کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں میں دودھ اور گوشت کی پرائس کیپنگ ہے ۔ حکومت کی جانب سے دودھ اور گوشت کی قیمتیں مقرر کر دی جاتی ہیں اور پھر اسی قیمت سے فروخت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جب جانوروں، ان کی خوراک اور ادویات کی قیمتوں اور دیگر اخراجات پر کوئی کنٹرول نہیں تو پھر ان جانوروں سے حاصل ہونے والی پروڈکٹس کی قیمت کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جب فارمر فری مارکیٹ سسٹم کے تحت خریداری کر کے جانور پالتا ہے تو پھر اس کا دودھ اور گوشت بھی فری مارکیٹ سسٹم کے تحت فروخت ہونا چاہئے۔ سندھ اور خصوصاََ کراچی کی انتظامیہ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ کراچی کی ڈیری فارمنگ کے ان بدترین حالات میں دودھ کی قیمت پر کنٹرول ختم کردے اور اسے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے تحت فروخت ہونے دے کہ فارمر اپنی مرضی کی قیمت لے سکے ۔ ہاں اگر پرائس فکس کرنا ہی ضروری ہے تو پھرفارمرز کی مشاورت سے ان کی پیداواری لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے فکس کی جائے ۔ یاد رکھیں کہ اگر آپ اصلی دودھ چاہتے ہیں تو اس کے لئے فارمر کو زندہ رکھنا ضروری ہو گا اور فارمر کے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ بچتا رہے۔ ہاں اگر اس قوم کو آہستہ آہستہ جعلی دودھ پر لانا ہے تو پھر یہ پالیسی ٹھیک ہے۔