ویٹرنری کالج جھنگ کے منصوبے بارے خبر اور اصل حقائق
Some Facts about the news of CVAS Jhang | ویٹرنری کالج جھنگ کے منصوبے بارے خبر اور اصل حقائق
یہ کالم دسمبر 2016میں لکھا گیا
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
روزنامہ نئی بات کی خبر، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کے ذیلی کیمپس کالج آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز جھنگ کا منصوبہ۔ کالج میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی منصوبے کا حصہ تھی۔ خبر کہتی ہے کہ منصوبے کے مکمل ہونے کی رپورٹ تو جمع کروا دی گئی مگر حقیقت میں کام مکمل نہیں ہوا۔ رپورٹر محترمہ روبا عروج نے خبر کی بنیادپلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومتِ پنجاب کے ڈائریکٹریٹ جنرل مانیٹرنگ اینڈ ایویلوشن کی رپورٹ کو بنایا۔ اخبار دیکھ کر کالج کی انتظامیہ نے ردِ عمل ظاہر کیا اور اس خبر کی تردید جاری کردی۔کالج انتظامیہ کا موقف تھا کہ اس بارے بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔منصوبہ ٹھپ نہیں بلکہ کامیاب ہوا جبکہ کالج کے تمام یونٹس کامیابی سے چل رہے ہیں۔ دوسری جانب کالج کے چند نوجوان اساتذہ اور طلباء نے سوشل میڈیا پر اس خبر کی شدید الفاظ میں مزمت کی اورخبر کو زمینی حقائق کے برعکس قرار دیا ۔
ایک خبر شائع ہوئی، ادارے نے تردید جاری کی، اخبار نے تردید شائع کر دی لیکن بطور پریس ریلیز۔ رپورٹر اپنی خبر پر قائم ہے جبکہ کالج کی انتظامیہ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی۔ خبر میں جن الفاظ کا استعمال ہوا اس سے لگتا ہے کہ منصوبے میں اعلیٰ درجے کی بے ضابطگیاں موجود ہیں جبکہ کالج کے موقف سے یہ تاثر ملتا ہے کہ خبر کی بنیاد جھوٹ ہے۔ واضح رہے کہ خبر میں انتظامیہ کا موقف یہ تحریر ہے کہ رپورٹ یکطرفہ اور بے بنیاد ہے جبکہ کالج کی جانب سے جاری کردہ تردید میں اس رپورٹ کے بارے کوئی بات نہیں کی گئی۔ با وثوق ذرائع کے مطابق انتظامیہ آن دی ریکارڈ اس رپورٹ کو غلط قرار نہیں دے رہی ۔ دوسری جانب کالج کی موجودہ قیادت کے بارے رائے عامہ بھی اچھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انتہائی قلیل عرصہ میں بھرپور محنت سے کالج کو چلنے کے قابل بنایا۔ ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ معاملے کی تہہ تک جایا جائے۔ اس لئے میں نے کوشش کر کے وہ رپورٹ حاصل کر لی ہے جس کی بنیاد پر یہ خبر شائع ہوئی ۔ اس رپورٹ میں جو کچھ ہے آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تاکہ حقائق واضح ہو جائیں ۔
185.550 ملین کا یہ منصوبہ 36 ماہ کے عرصہ میں مکمل ہونا تھا ۔ 30 جون 2016کو منصوبہ کے مکمل ہونے کی رپورٹV) (PC-Iجمع کروا دی گئی۔ ڈائریکٹریٹ جنرل پلاننگ اینڈ ایولیشن میں ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا اور اس منصوبے کی Evaluation کے لئے علی احمد ڈوگر (ریسرچ انالسٹ) اور انجینئر فہد احمد (پراجیکٹ مینجر) پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔28 اور 29 نومبر 2016 کو (منصوبے کے مکمل ہونے کی پورٹ جمع کروانے کے تقریباََ تین مہینے بعد) ٹیم کے رکن جناب علی امجد ڈوگر نے سائٹ کو دورہ کیا اور منصوبے کے متعلقہ مسودہ جات، حکومتِ پنجاب کی ہدایات، پراجیکٹ سٹاف کے انٹرویو اور زمینی حقائق کی روشنی میں رپورٹ مرتب کر دی۔
رپورٹ کے مطابق پانچ ڈیپارٹمنٹس کے لیبارٹری آلات مکمل تھے۔ جانوروں کے تجرباتی شیڈز، ویٹرنری کلینک اورمصنوعی نسل کشی کی لیب بن چکی تھی اوران میں کام جاری تھا۔تحقیقاتی ڈیری اور پولٹری یونٹس، پوسٹ مارٹم ٹیچنگ بلاک اور 25ایکڑ زمین کی بانڈری وال بھی مکمل تھے۔ مجموعی طور پر سول ورکس کی کوالٹی کو بھی تسلی بخش قرار دیا گیا۔دوسری جانب اسی رپورٹ کے مطابق منصوبے کے مکمل ہونے کی رپورٹ (PC-IV) جمع تو کروا دی گئی مگر Evaluationکے وقت لائبریری، آڈیٹوریم ، اور سٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر کا سول ورک جاری تھا۔ آڈیٹوریم کے فرش ،چھت ، بجلی ، واش رومز اور پینٹ کا کام رہتا تھا ۔لائبریری نان فنکشنل تھی اور اس میں کھڑکیوں اور شیشے کا کام ہو رہا تھا۔ سٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر کا بجلی کا کام رہتا تھا جبکہ اس کا باہر کا تھڑا بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ جانوروں کے تجرباتی شیڈز کی دیواروں میں دراڑیں موجود تھیں ۔ کچھ جگہ دیواروں میں leakage دیکھی گئی جسے رپورٹ میں انتہائی خطرناک قرار دیا گیا۔ عمارت کی اندرونی دیوروں میںseapage بھی دیکھی گئی ۔ کچھ عمارتوں کو منصوبے کے برعکس زیادہ جگہ پر بنا دیا گیا جبکہ کچھ کو کم پر۔ کچھ چیزیں منظور شدہ تعداد سے زیادہ جبکہ کچھ ڈبل قیمت میں خریدی گئیں ۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ منصوبے میں ایک عدد ہینو بس اور ایک عد ٹیوٹا کرولا کار خریدی گئیں۔طلباء و طالبات کے لئے خریدی گئی بس توموجود تھی مگر ٹیوٹا کرولا کار غائب۔2015 ماڈل کی ٹیوٹا کرولا کار جس کا رجسٹریشن نمبرLEJ-15-1242 ہے، نہ تو سائٹ پر موجود تھی اور نہ ہی پروجیکٹ کے کسی سٹاف کے زیر استعمال تھی۔
یہ تھا جی وہ سب کچھ جس کی بنیاد پر اخبار میں خبر لگی ۔ ہو سکتا ہے کہ آج چیزیں درست ہو گئی ہوں مگر جس وقت منصوبے کی تفتیش کی گئی اس وقت معاملات خراب تھے۔ میں احسان مند ہوں محترمہ روبا عروج کا کہ انہوں نے نظر اندازشدہ شعبہ کے بارے میں investigativeرپورٹنگ کی۔ ان جیسے اخبار نویسوں کی جانب سے محکمہ سے متعلق ثبوت کی بنیاد پر شائع ہونے والی خبروں سے محکمانہ کاروائیوں کے درست ہونے میں مدد ملتی ہے۔ چلیں چیزیں درست نہ ہوں،کم از کم کسی کو یہ احساس تو ضرور ہوتا ہے کہ ہم جو کرتے ہیں اس پر عوام کو جواب بھی دینا پڑ سکتا ہے۔ کالج کی انتظامیہ بھی داد کی مستحق ہے کہ انہوں نے خبر پر سرکاری طور پر رد عمل کا اظہار کیا۔ جہاں تک سوشل میڈیا پر کالج کے فیکلٹی ممبرز کی جانب سے نان آفیشل ردِ عمل کا تعلق ہے ۔۔ میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر تھوڑی سی گزارش سن لیں۔ مثال کے طور پر اگرآپ کے ادارے کا سربراہ فیکلٹی ممبرز کی رہائش کے لئے عالیشان ریسٹ ہاؤس بنا دے تو یقیناََ سب اس کے گن گائیں گے۔لیکن اگر اس عالیشان عمارت میں ناقص میٹیریل لگا ہو تو خدانخواستہ وہ ایک نہ ایک دن گر جائے گی اور اندرآپ لوگ سوئے ہوں گے۔ ان حالات میں میڈیا اگر عمارت کی تعمیر کی خبر لگائے گا تو سب کو بڑی خوشی ہو گی۔ ہاں اگر یہی میڈیا عمارت میں استعمال ہونے والے ناقص میٹیریل کی نشاندہی کرے تو اس پر مذمت کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ نشاندہی آپ ہی کے حق میں ہے۔ اس لئے برا نہ منایا کریں! آپ کے اچھے کاموں کی پزیرائی ہوتی رہے گی اور آپ خوش بھی ہوتے رہیں گے۔ ہاں جہاں کچھ ٹھیک نہیں ہو تا وہاں نشاندہی بھی ہوتی ہے، خبر بھی لگتی ہے اور تنقید بھی ہوتی ہے۔
میرے خیال میں اس خبر کا معاملہ تفصیل سے بتا دیا۔ اگر ابھی بھی کسی کی تسلی نہ ہو تو رپورٹ کی کاپی مجھ سے لے سکتا ہے جس میں چیزیں صرف تحریر نہیں بلکہ جو کچھ بیان کیا گیا اس کی رنگین تصاویر بھی موجود ہیں۔