ویٹرنری ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ۔۔ آغاز سے احتجاج تک 

Dr. Jassar Aftab Column

ویٹرنری ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ۔۔ آغاز سے احتجاج تک

History of Veterinary Doctors Association | ویٹرنری ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ۔۔ آغاز سے احتجاج تک

Vitural veterinary expo inpakistan online Expo

ویٹرنری ڈاکٹرز کیلئے مفت کرونا ویکسین، رجسٹریشن جاری

History of Veterinary Doctors Association | ویٹرنری ڈاکٹرز

ویٹرنری ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ۔۔ آغاز سے احتجاج تک 
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
ایک دو لوگ رابطے میں تھے، انتہائی مثبت سوچ کے حامل۔ موجودہ حالات سے خوش اور ذمہ دار نسیم صادق کو ٹھہرانے والے کہ بہت بہتری آئی، معاشرتی وقعت میں اضافہ ہوا، کام ہونا شروع ہوگیا۔ پریشان تھے کہ اس سیکرٹری کے جانے کے بعد کیا ہو گا۔ پرانے لوگ اکٹھے ہوں گے، کام کرنے والوں کو کھڈے لائن لگایا جائے گا، پھر مافیا بن جائیں گے، کام ٹھپ ہوجائے گا اور حالات وہی پرانے والے۔ چاہتے تھے کہ ایک ایسوسی ایشن بن جائے ۔۔ نوجوانوں کی ایسوسی ایشن ۔۔ کام اس کا یہ ہو کہ نسیم صادق کے جانے کے بعدبنا ہوا ماحول خراب نہ ہونے دے۔ یہ ایسوسی ایشن کسی امجد، اشرف، فہد، نبیل کی ڈیویلپمنٹ کی بات نہ کرے بلکہ پروفیشن کی ڈیویلپمنٹ کے لئے کوشاں ہو۔ آفیسرز کے ریفریشر کورسز کی بات کرے ، جدید ویٹرنری مہارتوں میں تربیت کی بات کرے، انٹرنیشنل ٹریننگ کی بات کرے ، بین الاقوامی exposure کی بات کرے ، پرائیویٹ سیکٹر میں موجود جدت کو اپنانے کی بات کرے، سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتالوں کی بات کرے ، سیمینارز، ورکشاپس کی بات کرے ۔ارادہ تھا کہ یہ ایسوسی ایشن نہ صرف موجودہ سیکرٹری کے جانے کے بعد کام کرنے والوں محافظ ثابت ہو گی بلکہ موجودہ دور میں بھی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ترقی کی رفتارمیں رکاوٹ بننے والوں کی حوصلہ شکنی کرے گی۔
آج بھی یہ اشخاص اپنے اس موقف پر قائم ہیں مگر مجبور ہو گئے۔ پہلے نوجوانوں والے concept سے نکل کر جنرل ایسوسی ایشن بن گئی اور پھر پروفیشنل ڈیویلپمنٹ والی سوچ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے افراد اور مطالبات والے راستے پر چل پڑے۔ پھر یہ احتجاج سامنے آگیا اور مثبت سوچ کا جنازہ نکل گیا۔ مقصد بس تنخواہ ،پیسے ، اور ٹرانسفر تک محدود ہو گیا۔ مبارک ہو کہ میرے بھائی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی یہ ایسوسی ایشن نظریاتی تنظیم سے روایتی تنظیم میں بدل گئی۔
کوئی ایسی قیامت برپا ہو نہیں گئی تھی کہ احتجاج کی کال دے دی جاتی ۔ اتنا ظلم ہو نہیں گیا تھا کہ سارے پنجاب کے ہسپتالوں ، رمضان بازاروں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا جاتا ۔ مطالبات اتنے بڑے نہیں تھے کہ ڈسپنسریوں کو تالے لگ جاتے۔بیٹھ کر چیزیں بہتر ہو سکتی تھیں۔ جب مطالبات سیکرٹری کے پاس پیش ہوئے تو جواب ملا کہ اس پر تو میں کام کر رہا ہوں۔ مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ مسائل خود ہی حل کر لوں۔ جب آپ کی ضرورت پڑی بلا لوں گا ۔ آپ لوگ بس کام کریں۔
کیا فائدہ ہوا اس ساری سر گرمی کا سوائے یہ کہ دل ہی دل میں خوش ہوتے رہیں۔ سارے پنجاب میں احتجاج کے ساتھ ساتھ محکمہ کی سرگرمیاں بند کرنے کی کال تھی جو کہ میرے نزدیک ناکام رہی۔ پنجاب کے تمام شہروں میں احتجاج نہیں ہو سکا اور معمول کی محکمانہ سرگرمیاں بھی جاری رہیں ۔ جن بیس شہروں میں ہلچل مچی ان میں سے بھی صرف اوکاڑہ اور ایک دو دوسرے شہروں میں بڑی سرگرمی نظر آئی، باقی شہروں میں لوگ جمع نہ ہوسکے۔ ان ریلیوں میں بھی مجھے ویٹرنری ڈاکٹر کی تعداد کم نظر آئی کہ اگر پیرا ویٹرنری سٹاف ساتھ نہ ہوتا تو یہ سرگرمی یا تو ملتوی کرنی پڑتی یا اگر ہو بھی جاتی تو مضحکہ خیز رہتی۔جو ویٹرنری ڈاکٹر میٹنگوں میں نظر آتے تھے یا سوشل میڈیا پر متحرک رہے، اس دن غائب تھے، سب اپنی اپنی ڈیوٹی کرتے رہے۔ کنفیوژن بھی رہی کہ یہ احتجاج تھا کس کے خلاف ۔اگر سیکرٹری لائیوسٹاک کے خلاف تھا توپھر نسیم صادق زندہ باد کے نعرے کیوں لگتے رہے۔
سر اس میں غصہ کرنے کی بات نہیں، بس گزارش اتنی ہے کہ جمعہ جمعہ آ ٹھ دن ہوئے ہیں تنظیم کو بنے۔ ابھی اس تنظیم کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ۔بجائے یہ کہ آپ کوئی مثبت سرگرمی کرکے اپنی اہمیت پیدا کرتے ،اس منفی سرگرمی سے انتظامیہ کو اپنے خلاف کر لیا۔ اس کی جگہ اگر آپ نے کوئی کمرشل ڈیری فارمنگ پر تمام اضلاع میں کسی پرائیویٹ ادارے کے تعاون سے ٹریننگز کر وا ئی ہوتیں تو انتظامیہ کے نزدیک آپ کی وقعت میں اضافہ ہوتا۔ جب وقعت ہو تو بات میں وزن پیدا ہوجاتا ہے اور وزن والی بات سنی بھی جاتی ہے۔
مطالبات کی بات کر لیتے ہیں کہ الاؤنس وغیرہ فوری منظور کئے جائیں۔ بھائی یہ مالی معاملات اتنی آسانی سے حل نہیں ہوتے۔ میں نے انتہائی طاقتور لوگوں کو منظوری کے باوجود فنڈز کے حصول کے لئے مہینوں فنانس ڈیپارٹمنٹ میں دھکے کھاتے دیکھا ہے۔ الاؤنسز کی منظوری کے لئے تو بات بھی چل رہی ہے پچھلے دو سالوں سے۔ ابھی معاملہ رانا ثناء اللہ کی کمیٹی کے پاس ہے جس میں کچھ تکنیکی مسائل ہیں۔ آپ کے احتجاج سے کم از کم یہ مسائل حل نہیں ہوں گے ہاں اس احتجاج کا برا اثر ضرور پڑے گا ۔ مدبرانہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بہتر پرفارمنس کی بدولت رسک الاؤنس وغیرہ کی منظوری کے لئے حالات سازگار ہو نے تھے جبکہ زور آزمائی سے معاملات بگڑتے ہیں۔ اگر YDA آئیڈیل ہے تو اسے ہی دیکھ لیں، سارے مطالبات بھی منظور نہیں ہوئے اور عوام کی نظروں میں عزت بھی گنوا لی۔
سروس سٹرکچر تو میرا خیال ڈاکٹرز کا موجود ہے ۔ باقی سٹاف کا بھی منظوری کے پراسیس میں ہے۔پوسٹنگ والا مطالبہ درست ہے کہ گھروں کے قریب ہونی چاہئے کہ دوری سے بہت زیادہ مسائل جنم لیتے ہیں ۔جہاں تک بات رہی کہ ٹائم سے زیادہ کام نہ لیا جائے تو یہ بھی کسی حد تک ٹھیک ہے مگر افسران کو وقت سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ آج عزت اور مقام جو محکمہ لائیوسٹاک کے افسران کو ملاہے ،یہ ان کی دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اگر Dignified Officer بننا ہے جس کی ضلعی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بھی اہمیت ہوتو زیادہ سے زیادہ کام کرنا پڑے گا۔ عزت اور حیثیت میں اضافہ کام کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کے حصول کے لئے Time and Space سے آزاد ہو کر خبطی ہو جانا پڑتا ہے۔ ونڈا وغیرہ بیچنے سے انکار مناسب نہیں ہاں اس سے متعلقہ جو مسائل ہیں ان کے حل کے لئے انتظامیہ کو ضروری انتظامات کردینے چاہئیں۔
بڑے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ محکمہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ نسیم صادق ذاتی طور پر محکمہ کی فلاح کے لئے کوشاں ہے۔ اس شخص نے کوئی اتنا برا کیا نہیں کہ محکمہ اور محکمہ کے افسران سڑکوں پر آ جائیں۔ ہاں اس شخص سے تکلیف ان لوگوں کو ضرور ہے جنہوں نے کبھی کام کیا نہیں یا وہ کام کرنا نہیں چاہتے اور اب کام کرنا پڑ رہا ہے ۔ یا ان مافیاز کو تکلیف ہے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر چکے ہیں اور واپس پرانی جگہ چاہتے ہیں۔ یا پھر تکلیف ان کو ہے جن کی روٹیاں بند ہو چکی ہیں۔ اس سے احتجاج والے دوست بھی اتفاق کرتے ہیں ہاں مگر پسِ پردہ۔کام کرنے والے، جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، آج خوش ہیں اور کام کرکے انجوائے کر رہے ہیں۔ احتجاج والے ہی ایک دوست نے بتایا کہ ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا ” میں نے اپنی بیس سال کی نوکری میں کام ہی پچھلے تین سالوں میں کیا ”۔
ہو سکتا ہے کہ احتجاج والوں کی نیت کچھ اور ہو مگر اس ساری سرگرمی سے مجموعی تاثر اچھا نہیں ملا اور میڈیا نے بھی اسے نسیم صادق کے خلاف احتجاج تصور کر کے خبریں لگائی ہیں، یہ تاثر اچھا نہیں۔ معاملہ ابھی بہت بگڑا نہیں کہ واپسی ہو سکتی ہے ۔ VDA زندہ باد ،پاکستان پائندہ باد ضرور ہونا چاہئے مگر اس سے ویٹرنری پروفیشن کی زندگی کو تقویت ملنی چاہئے کیونکہ اگر ویٹرنری پروفیشن زندہ باد ہے توہم سب ہیں۔

author avatar
Editor In Chief
Dr. Jassar Aftab is a qualified Veterinarian having expertise in veterinary communication. He is a renowned veterinary Journalist of Pakistan. He is veterinary columnist, veterinary writer and veterinary analyst. He is the author of three books. He has written a number of articles and columns on different topics related to livestock, dairy, poultry, wildlife, fisheries, food security and different aspects of animal sciences and veterinary education.

Read Previous

ویٹرنری ڈاکٹرز کی نئی ایسوسی ایشن کا قیام ۔۔ آخری مراحل میں

Read Next

گندم ڈیوٹی والے ایک اور ڈاکٹر پر تشدد ۔۔ سیکرٹری لائیوسٹاک نوٹس لیں !

One Comment

  • I absolutely love your blog.. Pleasant colors & theme. Did you make this website yourself? Please reply back as I’m trying to create my own blog and would love to learn where you got this from or just what the theme is called. Thank you!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Share Link Please, Don't try to copy. Follow our Facebook Page