نیا پاکستان یا نیا عمران خان
نیا پاکستان یا نیا عمران خان!
مضامینِ نو
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
ماضی پر تنقیدیں،حال پر تاویلیں ، مستقبل کے وعدے ،بل کھاتے فیصلے اورسرچکراتے اعدادو شمار ۔۔ یہی اندازِ حکومت رہا دہائیوں سے ہمارے ملک کا۔ ہر دس پندرہ سال کے بعد جو بھی قیادت سامنے آئی اور قوم کی امیدیں اس سے وابستہ کروائی گئیں،وہ آخر کار سسٹم کا حصہ ہی بنی یا اسے بنا دیا گیا ۔
لوٹ کر کھا گئے اس ملک کو۔۔ یہاں مافیاز کا راج ۔۔ بیورکریسی ذاتی ملازم بن چکی ۔۔ الیکشن پر دولت کی سرمایہ کاری اور پھر جیتنے کے بعد کئی گنا پرافٹ کمانے کے لالچ کے ساتھ ساتھ پیسہ لگانے والے سپورٹرز کی خواہشات کی تکمیل ۔ ۔بڑی کابینہ اور اس کے شاہی اخراجات ۔۔ سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور اعلیٰ افسروں کے فرنٹ مینوں کے ذریعے ٹھیکے اور کمیشنیں ۔۔ ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں کی کارپوریٹ سیکٹر میں بھرتیاں اور پھر مفادات کا تحفظ۔۔
میرٹ کے برعکس فیصلے اور قانون کا مزاق ۔ ۔ لمبی لمبی پیشیاں اور انصاف کی عدم دستیابی ۔۔ جھوٹے پرچے اور جعلی پولیس مقابلے ۔۔ تھانہ کچہری اور غریب کی بدحالی ۔۔غیر قانونی بھرتیاں اور سفارش پر پروموشنز۔۔ خواہش پر تبادلے اور تعیناتیاں ۔۔ ایماندار اور محنتی افسرکھڈے لائن اور کرپٹ اور تیز افسر ہر حکومت کی شان ۔۔
غیر ملکی قرضے اور سخت شرائط ۔۔ کارپوریٹ سیکٹر کے لئے سبسڈیز اور غریب پر ٹیکسوں کی بھرمار ۔۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ والوں کی چالاکیاں اور اکاؤنٹس والوں کی پکی کٹوتیاں ۔۔ ناجائز تجاوزات، زمینوں پر قبضے اور پلاٹوں کی ہیرا پھیرا ۔۔ زرعی زمین پر ہاؤسنگ زمینوں کا قیام اور ماحول کی تباہی ۔۔
صحافیوں کو تنخواہوں کی عدم دستیابی اور بلیک میلنگ ذریعہ معاش ۔۔ ڈاکٹر مافیا کا راج اور جعلی ادویات ۔۔ سرکاری سکولوں کی پسماندگی اور بیسیوں طرز کے نظامِ تعلیم پر مشتمل سکولوں کا جال ۔۔ مہنگے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور پروفیشنل بیروزگاری ۔۔
یہ سب کچھ ہمیں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بتایا جاتا رہا کہ ’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے ،انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟‘‘ کا مصداق یہ پرانا پاکستان ہے۔پھر اسی کو بدلنے کا نعرہ لگاکر یہ الیکشن لڑا گیا ۔
اب ان مسائل کو حل کرنا ہو گا، پھر حقیقی تبدیلی آئے گی۔ یہ وہ بنیادی اور اہم ترین مسائل ہیں جن سے باقی مسائل جنم لیتے رہے اور جنہوں نے اس ملک کو پیچھے دھکیلنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کو حل کرنے سے شجر کاری، Stunted Growth ، تعلیم، صحت ، پانی ،چائے بسکٹ کے خرچے،بڑے محلات اور دیگرثانوی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ماضی کی طرح ان بنیادی مسائل کے برعکس توجہ ان مسائل سے جنم لینے والے مسائل پر رہی تو اس سے ظاہری صفائی تو ہو جائے گی اور وقتی خوشحالی بھی شاید نظر آ جائے مگر بنیاد میں موجود جڑیں کچھ عرصہ بعد دوبارہ ابھر آئیں گی اور مسائل کی مزید پیداوار سے ملک کو جھاڑی دار بنا دیں گے۔ اور سب سے اہم کہ تبدیلی والوں کی نیت تبدیل ہونے کا تاثر ملے گا۔
انہی مسائل کو بنیاد بنا کر ،ان مسائل کے ذمہ دار مافیاز کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ایک شخص نے بائیس سال تک جدو جہد کی اور آج وقت، طاقت، حکومت کے ساتھ ساتھ قوم کی سپورٹ اور اداروں کا اعتماد اسے حاصل ہے ۔ اب اگر نیت اچھی ہو تو تبدیلی کے نہ آنے کا جواز نہیں بنتا۔ اگر پرانے پاکستان کے یہ بنیادی ترین مسائل نہیں بدلتے اور پانچ سال تک روزانہ شام سات سے رات بارہ بجے تک ٹی وی چینلز پر ماضی پر نتقیدیں، حال کی تاویلیں، مستقبل کے وعدے ، اعدادو شمار کے چکر اور سہانے خواب سننے کو ملتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن سے پہلے خوبصورت اور اعلیٰ معیار کے ٹی وی اشتہارات کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مان لیں پاکستان نیا بن چکا ہے تو معذرت کے ساتھ، اس کے بعد قوم کسی پر اعتماد نہیں کرے گی۔ اگر ان بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی تو نیت چاہے لاکھ اچھی ہو اور حوصلے چاہے جتنے بھی بلند ہوں، یہ سسٹم بیس سال بعد اس عمران خان کو بدل کر یا تو نواز شریف زرداری وغیرہ بنا دے گا یا پھر بھٹو!
یہ اب وقت بتائے گا کہ ان پانچ سالوں میں پاکستان بدلتا ہے یا یہ سسٹم عمران خان کو بدل ڈالتا ہے۔ابھی انتظار کرتے ہیں کہ ہمیں نیا پاکستان ملتا ہے یا نیا عمران خان!