لاہور میں دودھ کی فروخت کا منفرد انداز

Column by Dr. Jassar Aftab Veterinary Columnist and Analyst

لاہور میں دودھ کی فروخت کا منفرد انداز

Sale of Milk in Lahore in a different way | لاہور میں دودھ کی فروخت کا منفرد انداز

کراچی میں گائے کے دودھ کو پروموٹ کرنے کا اعلان

Sale of Milk in Lahore in a different way | لاہور میں دودھ کی فروخت کا منفرد انداز

لاہور میں دودھ کی فروخت کا منفرد انداز
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
آٹو میٹک مِلک ڈسپینسر۔۔ ایسی مشین جس میں سکہ، ٹوکن یا کارڈ ڈالا جائے اور دوسری جانب سے مقررہ مقدار میں دودھ کسی برتن، شاپنگ بیگ وغیرہ میں ڈل جائے۔ مشین کسی آپریٹر کی مدد سے بھی چلائی جا سکتی ہے اور اگر کہیں تہذیب کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری موجود رہے تو پبلک بغیر کسی آپریٹر کے بھی استعمال کر سکتی ہے۔ میٹرو بس کی طرز پر ایک شخص ٹوکن بیچے اور خریدار اس ٹوکن کو مشین میں ڈال کر دودھ حاصل کر لے، ٹوکن کی جگہ عام اے ٹی ایم کارڈ کی طرز پر کارڈ بھی بنایا جا سکتا ہے جس سے دودھ نکالنے کے برابر پیسے کٹتے رہیں اور بعد میں یہ کارڈ ریچارج ہو جائے۔ اس طرح کا آپریشن اچھے پلے لینڈز میں دیکھنے کو ملتا ہے جدھر یا تو ٹوکن کا استعمال ہوتا ہے اور یا آپ کارڈ خرید کرپھر اسے ریچارج کرتے رہتے ہیں۔ پٹرول پمپ کی طرز پر ایک پینل بھی نصب ہو سکتا ہے اس مشین میں جہاں مقررہ مقدار درج کر کے دودھ حاصل کر لیا جائے۔
لاہور کے ماڈل بازار میں ایک مشین لگی ہے، ملک ڈسپینسر ہے، پاکستان ہی میں بنی ہے۔ مبینہ طور پر دودھ اس میں اصلی ڈالا جاتا ہے جو پاسچرائزڈ ہوتا ہے اور مشین میں ٹھنڈا رہتا ہے۔ یہاں ایک آپریٹر بٹھا چھوڑا ہے جو دودھ نکا لنے میں لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ مشین ابھی پٹرول پمپ کی طرز پر کام کر رہی ہے مگر امید ہے کہ اس سے آگے کی ٹیکنالوجی بھی اگلے چنددنوں میں منظرِ عام پر ہو گی۔ کہتے ہیں کہ اسے جوہر ٹاؤن سمیت لاہور کے دیگر علاقوں میں بھی نصب کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ لاہور کے بعد راولپنڈی کا رخ ہو جائے۔
منصوبہ یہ پرانا ہے، تقریباََ چھ سال پرانا۔ اس پر کام ہوا اور ٹھیک ٹھاک ہوا۔ اسی ادارے نے کیا۔ کام کے بعد اسے انسٹال کرنے کا پلان تک کئی دفعہ بنا۔ اسے نصب کرنے کے لئے فنکاروں سے Huts بھی ڈیزائن کروائے گئے یہاں تک کہ کسی جگہ مارکیٹنگ پلان بھی بن گیا۔ مگر پھر خفیہ طاقتوں کی جانب سے یہ منصوبہ فائلوں میں دبا دیا گیا اور کوشش کی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دب جائے۔ اُس وقت اس ادارے کی انتظامیہ چاہتے ہوئے اور دل سے چاہتے ہوئے بھی اسے عملی شکل نہ دے سکی۔ خیر پنجاب لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ بورڈ (PLDDB) نے اور خاص طور پر اس کی ڈائریکٹر سائرہ افتخار نے بڑی ہمت کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منصوبے کو حقیقت کا رنگ دینے میں بورڈ کے افسران چوہدری تصدق ، محمد فاروق اور دیگر بھی داد کے مستحق ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ مشین زیادہ دیر نہ چل سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدائی طور پر اس کے چلنے میں مسائل درپیش ہوں۔ چونکہ چند دنوں بعد اس حکومت نے چلے جانا ہے اور بورڈ کی انتظامیہ میں بھی تبدیلی آئے گی، اس لئے ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ منصوبہ حسبِ روایت نیم سرکاری منصوبوں کی طرح بدحال ہو جائے۔ لیکن خدانخواستہ بدترین صورت حال کے باوجود اور منصوبے میں بڑے نقصان کی صورت میں بھی بورڈ کے نمبر پورے ہیں۔
دراصل پہلے دن سے اس منصوبے سے تکلیف تھی اور اسی تکلیف کے باعث یہ کنسیپٹ چھ سات سال بعد منظر عام پر آیا۔ تکلیف اس مافیا کو تھی جو پاکستان میں کھلے اصلی دودھ کی فروخت کو بند کرنے کے در پے ہے۔ بلکہ یہ مافیا پاکستان میں دودھ کے پیداواری سسٹم کو ختم کرنا چاہتاہے۔ یہ وہی مافیا ہے جو سوکھے دودھ کو پانی میں گھول کر پلاتا ہے اور اصلی دودھ کی جگہ اس قوم کو جعلی دودھ پر لگانا چاہتا ہے۔ اس مافیا کی کوشش تھی کہ اس منصوبے کو کسی طرح سے روکا جائے کیونکہ اسے علم تھا کہ یہ منصوبہ اگر ایک دفعہ منظر عام پر آ گیا تو یہ اس طبقے کے لئے نعم البدل ہوگا جنہیں کوالٹی کے نام پر مختلف شکلوں میں جعلی دودھ پلایا جاتا ہے ۔ یقیناََ ان حالات میں بورڈ کااس منصوبے کو دوبارہ زندہ کرنا اور گراؤنڈ پر لانا قابلِ ستائش ہے۔
یہ منصوبہ ایک ایسا کمرشل ماڈل ہے کہ اگر اسے پراپیگیٹ کیا جائے تو لاہور اور دیگر بڑے شہروں کی دودھ کی مارکیٹ کو ایک نیا رخ مل سکتا ہے ۔ بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور اور شاپنگ مال اس مشین کی اصل جگہ ہیں اور یہاں آنے والی کمیونٹی کے لئے یہ بہترین منصوبہ ہے۔ پنجاب لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ بورڈ کو چاہئے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے آگے لائے اور کوشش کرے کہ کم از کم لاہور کے دو بڑے شاپنگ مالز اور بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور ز پر یہ مشینیں لگ جائیں لیکن اس میں شرط یہ ہو نی چاہئے کہ ان مشینوں کے ذریعے دودھ اصلی بیچا جائے گا یعنی وہ دودھ جو گائے، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگلے مرحلے پر ایسی مشینیں میٹرو اور پھر اورنج ٹرین کے سٹیشنز پربھی لگانی چاہئیں تاکہ عام پبلک میں یہ کنسیپٹ مزید پھیلے اور سرمایہ دار اس جانب راغب ہو کر مزید ایسے یونٹ لگائے اور پھر آگے موبائل یونٹس کی طرف بڑھا جائے۔ اس سلسلے میں پنجاب فوڈ اتھارٹی ، محکمہ لائیوسٹاک اور دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بڑھ جائے گی کہ ایسی مشینوں کے ذریعے اصلی اور معیاری دودھ ہی فروخت ہونا چاہئے ۔

Read Previous

لائیوسٹاک سیکٹر کی تباہی اور خشک دودھ 

Read Next

پنجاب کے قبائلی علاقے (پاٹا) اور لائیوسٹاک ایوارڈز 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Share Link Please, Don't try to copy. Follow our Facebook Page