قربانی کے جانور اور چند احتیاطیں

Dr. Jassar Aftab Column

قربانی کے جانور اور چند احتیاطیں

Care of Sacrificial animals, purchasing, feeding and slaughtering of sacrificial animals on Eid ul adha | قربانی کے جانور اور چند احتیاطیں

قربانی کے جانور کے انتخاب میں کن پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے، آصف محمود کی خصوصی رپورٹ

slaughtering of sacrificial animals | قربانی کے جانور

قربانی کے جانور اور چند احتیاطیں
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
زیادہ خرچہ نہیں آتا، تھوڑی مقدار میں نمک چاہئے۔ کھال کے اندر کی جانب چھڑ کیں اور اسے ہوا دار جگہ پر پھیلا دیں۔ ضروری اس لئے ہے کہ بغیر نمک لگی کھال 4 گھنٹے سے زیادہ نکال نہیں سکتی۔کھال کو دھوپ اور بارش سے خاص طور پر بچانا چاہئے۔ جانور کی کھال اتارنے کا شوق رکھنے والے اپنے فیملی ممبرز اناڑی قصائیوں سے کئی گنا زیادہ کٹ لگا کر اسے بیکار کر دیتے ہیں۔ اس لئے کھال اتارنے کے لئے کسی ماہر کو موقع دیں ۔ ہماری یہ چھوٹی چھوٹی لاپرواہیاں قربانی کی کھالوں کی کوالٹی پر اثر انداز ہو کر ان کی قیمت میں کمی کا باعث بنتی ہیں جس سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ہمیں اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ کھال کسی کی امانت ہوتی ہے۔ اس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر مستحقین کو ملنے والے کھالوں کی وقعت نہیں رہے گی تو انہیں فائدہ بھی نہیں ہو گا۔کھال اترنے کے بعد اسے جلد از جلد مستحق شخص یا ادارے تک پہنچا دیں۔ ہاں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کھال کو پلاسٹک کے لفافے میں نہ ڈالا جائے۔
کھال سے پہلے اہم مرحلہ جانور کی خریداری ہے۔ لائیوسٹاک فارمنگ میں جدت کے باعث اب گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ہاں دیگر ممالک سے جانوروں خصوصاََ گائیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے مقامی جانوروں کی نسل کشی میں غیر ملکی نسلوں کے نر جانور اور مصنوعی طریقہ نسل کشی میں ان ممالک سے درآمد شدہSemen کا استعمال عام ہو گیاہے۔ اس طرح کی نسل کشی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی نئی نسل میں مقامی جانور کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ غیر ملکی جانور کی خصوصیات بھی ملیں گی جس کے باعث اسکی شکل ، جسامت اور رنگت ہمارے جانوروں سے مختلف ہو گی۔ بچھڑے کا تعلق ساہیوال ، دھنی ، یا چولستانی نسل سے ہو یا پھر غیر ملک فریزئن ،بیلجین بلو ،آنگس جیسی نسلوں سے، بچھڑا ہی ہو گا ۔ اسی طرح اگر ایک بچھڑا جس کی ماں ساہیوال نسل کی اور باپ آنگس نسل کا ہے، تو وہ بھی بچھڑا ہی ہو گا۔ اس کی قربانی میں جائز ناجائز کی بحث کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس طرح کی mixed breed کے جانوروں کو عجیب قرار دے کر میڈیا پر خصوصی پروگراموں کے ذریعے طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں ۔ یہ سب بے بنیاد ہے۔
بچوں کا کوئی کام نہیں جانور کی خریداری کے دوران، اس طر ح کا شوق بعض دفعہ بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ترجیحاََ دن کی روشنی میں منڈی کا رخ کریں، بند جوتے پہن لیں۔ کسی ایسے رشتے دار یا دوست کو ساتھ ضرور لے جائیں جو قربانی کے جانور کے انتخاب میں شرعی اصولوں کو سمجھتا ہو۔ بڑے جانور کی صورت میں اسے گھر لانے کے لئے کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کریں جسے جانور سنبھالنے کا تجربہ ہو۔ غیر تجربہ کار شخص سے جانور بے قابو ہو جاتا ہے اور پھر مالک کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے لوگوں کا بھی نقصان کرتا ہے۔
جانور کو باندھنے کے لئے جگہ کا انتخاب جانور کے مطابق کریں۔ بڑے جانور کی صورت میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ فرش پھسلن والا نہ ہو۔جگہ ہوادار ہو اور موسم کی شدت سے محفوظ رکھے۔ جانور کے ارد گرد صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ دانے، ونڈے ، کھل وغیرہ کے برعکس جانور کی خوراک کے لئے تازہ سبز چارے کا انتخاب کریں اور اس کے ساتھ تازہ پانی پینے کو دیں۔ تیل، دودھ جلیبی، سوڈا بوتل، لسی اور دیگر اس طرح کی چیزیں جانور کو ہرگز نہ پلائیں۔ چھوٹے بچوں کو جانور سے دور رکھیں ، بڑے جانور کی صورت تو بچے کو قریب بھی نہ آنے دیں ۔ اگر جانور بیمار ہو جائے تو کسی عطائی یا سیانے وغیرہ کے مشورے سے دور رہتے ہوئے اپنے علاقے میں موجود ویٹرنری ہسپتال، ڈسپنسری یا کیمپ سے رابطہ کریں۔ پنجاب میں آپ محکمہ لائیوسٹاک کی ہیلپ لائین 08000-9211 سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔
پاکستان میں کوئی ایسی بری حالت نہیں کہ خوف زدہ ہو جایا جائے اور قربانی کے جانوروں سے دور بھاگا جائے ۔ہاں چونکہ کانگو ایک جان لیوا بیماری ہے اور اس کی وبا کو کنٹرول کرنا مشکل ہے اس لئے احتیاط کی ضرورت البتہ ہے۔ پاکستان میں جانور لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر ہر ایک پر چیچڑ موجود نہیں ہوتے۔ اسی طرح چیچڑوں کی سینکڑوں اقسام ہیں مگر ہر کسی میں کانگو کا وائرس نہیں ہوتا کیونکہ یہ وائرس خاص قسم کے چیچڑ میں رہتا ہے۔ کانگو بخار کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں مگر تعداد میں بہت کم ہیں اور سال کے کسی خاص دن یا مہینے تک محدود نہیں ۔ بلوچستان میں ان کیسز کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ تمام صوبوں کے لائیوسٹاک کے محکمے متحرک ہیں اور ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ لائیوسٹاک کی چیک پوسٹیں اور عارضی کیمپ بھی قائم کر دیے گئے ہیں جو جانوروں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرتے ہیں۔ اس لئے ڈریں نہیں، ہاں احتیاط ضرور کریں۔ منڈیوں میں پوری آستین والے کپڑے پہن کر جائیں۔ ہلکے رنگ کے کپڑے پہن لیں تاکہ اگر چیچڑ موجود ہو تو کپڑوں پر واضح ہو جائے۔ کسی تجربہ کار کی معاونت سے صحت مند جانور خریدیں۔ اگر جانور پر چیچڑ کی موجودگی کا پتہ چلے تو انہیں ہاتھ مت لگائیں اور اس سلسلے میں محکمہ لائیوسٹاک سے رابطہ کریں۔ جانور کے خون کو بلا ضرورت جسم پر نہ لگنے دیں اور دستانوں وغیرہ کا استعما ل کر لیں۔ جانور ذبح کرنے کے بعد فوراََ صفائی کریں۔ کسی جگہ خون جمع نہ ہونے دیں۔ الائشوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب کریں اور اس سلسلے میں میونسپل اداروں سے رہنمائی لے لیں۔
پنجاب سمیت تمام صوبوں کے لائیوسٹاک کے محکمہ جات میں کانگو کمپین کے دوران جس چیز کی کمی نظر آتی ہے وہ ویٹرنری سٹاف کے لئے سیفٹی اقدامات کا فقدان ہے۔ یہ چیز بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ کانگو بخار کا سب سے زیادہ خطرہ ویٹرنری ڈاکٹرز کو لاحق ہے جن کا واسطہ پڑتا ہی بیمار جانوروں سے ہے۔ بہت ضروری ہے کہ جو سٹاف کانگو کمپین میں کام کر رہا ہے اسے تمام سیفٹی آلات اور سپیشل کوسٹیوم فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹاف کی اس حوالے سے بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ بھی کروائی جائے۔ اس ضمن میں کوتاہی بڑی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

Bell Button Website Jassaraftab

Read Previous

ویٹرنری ڈاکٹر پر تشدد اور ضلع کے اعلیٰ افسروں کی بے حسی 

Read Next

انٹر نیشنل پولٹری ایکسپو اور آئیڈیا کروڑوں کا 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Share Link Please, Don't try to copy. Follow our Facebook Page