سانحہ احمد پور شرقیہ ۔۔ غربت یا لالچ؟

Dr. Jassar Aftab Column

سانحہ احمد پور شرقیہ ۔۔ غربت یا لالچ؟

Reasons and facts about the Incidence of Ahmedpur Sharqia | سانحہ احمد پور شرقیہ ۔۔ غربت یا لالچ؟

بہاولپور چڑیا گھر؛ ٹائیگرز کا مبینہ حملہ، پنجرے میں لاش پائی گئی

Incidence of Ahmedpur Sharqia | سانحہ احمد پور شرقیہ

سانحہ احمد پور شرقیہ ۔۔ غربت یا لالچ؟
ڈاکٹر محمد جاسر آفتاب
تین وقت کی روٹی، پھر اچھا کھانا، پھر بہت اچھا کھانا ، پھر بہت مہنگا کھانا، اور پھر۔۔۔، رہنے کو چھت ، پھر اچھا گھر، پھر بڑا گھر، پھر بہت بڑا گھر ، پھر اور بڑھا اور پھر۔۔۔، پہننے کو لباس، پھر سر سے پاؤں تک میچنگ، پھر مہنگا لباس، پھر برینڈ ، پھر مہنگے برینڈ، اور پھر ۔۔۔ بچو ں کی تعلیم، پھر اچھی تعلیم، پھر بہت اچھے سکو ل میں تعلیم، پھر مہنگے اور پھر بہت مہنگے سکول میں تعلیم اور پھر ۔۔۔، اپنی سواری، پھر گاڑی، پھر اچھی گاڑی، پھر مہنگی گاڑی ، پھر بہت مہنگی گاڑی اورپھر ۔۔۔ ؛اگر وقت میں جدت کے ساتھ بدلتے انسانی تقاضوں کو مدِ نظر رکھیں، تو پھر بھی انسان کی بنیادی ضروریات کا احاطہ کرنا مشکل نہیں؛ مناسب کھانا، مناسب لباس ، بنیادی سامان پر مشتمل مناسب گھر ، روزمرہ کے بنیادی اخراجات اور شایدضرورت کے مطابق مناسب سواری ۔۔ اس کے آگے لالچ ہے اور اس کی کوئی حد نہیں۔
یہی لالچ ہے جسے بری بلا کہا گیا۔ پہلے جسمانی سکون کو غارت کرتا ہے، پھر ذہنی سکون کو تباہ کردیتا ہے ۔ذاتی اطمینان اور دلی سکون کے برعکس لالچ کو اپنے اوپر غالب کرکے انسان ایسی دوڑ میں لگ جاتا ہے کہ ہر قدم پراکٹھا بھی کرتا جاتا ہے مگر منزل کبھی نہیں پاتا۔ اگر کہیں منزل کے قریب پہنچے بھی تو اس کے دل و دماغ میں موجود لالچ اسکی منزل کو اور آگے لے جاتا ہے۔ ہاں ایک موقع ضرور آتا ہے جہاں اس کے اس لالچ کا خاتمہ ہوتا ہے مگر افسوس کے اس وقت اس کااپنا بھی خاتمہ ہو چکا ہوتا ہے ۔ میرے بزرگ ڈاکٹر محمد حسین نے کیا خوب جملہ سنایاتھا کہ کتے کی بھوک پیٹ بھرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے مگر انسان کی بھوک شروع ہی اُس وقت ہوتی ہے جب اس کا پیٹ بھرتا ہے۔ اسی بھوک کا نام لالچ ہے۔
یہ لالچ انسان کو اس کی خواہشات کے طابع کر دیتا ہے۔ پھر بڑھتی ہوئی خواہشات اور لالچ انسان کوڈونڈھنے، اکٹھا کرنے اور سنبھالنے پر لگا دیتی ہے۔ جہاں سے بھی ملے، جیسے بھی ملے، جب بھی ملے ،اکٹھا کرنے اور سنبھالنے میں لگا رہتا ہے۔ ایسا نہیں کہ دولت میں دھنسا ہوا لالچی انسان بڑا خوشحال ہوتا ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسکی زندگی حرام ہو چکی ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے وہ محسوس نہیں کرتا۔ ذہنی انتشار اور بے چینی کو کامیابی سمجھتے ، ظلم سے کمائی ہوئی دولت کو نعمتِ الٰہی تصور کرتے ، اپنی اولاد کی کرتوتوں کو جدت کا نام دیتے اور اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کو اللہ کی آزمائش تسلیم کرتے ہوئے دھوکے باز ظالم انسان لوگوں ہی سے لوٹی ہوئی دولت کو غریبوں میں تقسیم کرکے اور چند مذہبی فرائض کی ادائیگی سے دل کو تسلی دیے رکھتا ہے۔ ہاں مگر وہ ایک چیز بھول جاتا ہے کہ حساب تو آخر میں ہونا ہے اور ضرور ہونا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جس کی لاٹھی ہوتی ہے بھینس بھی اسی کی ہوتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ لاٹھی کی ایک عمر ہوتی ہے۔ لاٹھی چلاتے رہیں ۔۔ چلاتے رہیں، ایک وقت آتا ہے کہ یہی لاٹھی کمزور ہو جاتی ہے اور پھر ٹوٹ پھوٹ کر ختم۔ ہو سکتا ہے کہ لاٹھی کی عمر بہت ،بہت لمبی ہو جائے ، مگر یہ دائمی نہیں ہوتی ، اس کا انجام بھی خاتمہ ہی ہوتاہے۔
دولت کی غیر منصفانہ تقسیم معاشرے کو دو یا تین نہیں بلکہ سینکڑوں طبقات میں تقسیم کر دیتی ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم کو تو شاید انسان رضائے الٰہی سمجھ کر تسلیم کرلے مگر غیر منصفانہ تقسیم اور اس کے باعث معاشرے کی تقسیم در تقسیم احساسِ محرومی پیدا کرتی ہے اور اسی سے طبقات میں نفرت جنم لیتی ہے۔ احساسِ محرومی، طبقاتی نفرت، اور لالچ جیسی بلائیں پھر لوٹ مار کی بنیاد رکھتی ہیں۔
وہاں مسئلہ صرف غربت ، جہالت اور سہولیات کے فقدان کا نہیں تھا۔ وہاں احساسِ محرومی بھی تھی، طبقاتی نفرت بھی تھی اور سب سے بڑھ کر لالچ تھا ۔۔ ان بیماریوں کا شکار انسان لوٹ کر اکٹھا کرنے میں مصروف تھا۔ یہ لوٹ مار کسی پسماندہ علاقے کے بیچوں بیچ گزرتی تیز رفتار ہائی وے کے کنارے اُلٹے آئل ٹینکر تک محدود نہیں بلکہ ضلعی دفتر کے کلرک سے لے کر صوبائی و قومی سطح کے کسی اعلیٰ ترین عہدیدار کے سٹاف افسر تک، ضلع کے نوجوان ٹیکنوکریٹ سے لے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ڈائریکٹر جنرل تک، گردن میں نیا نیا سریا لئے نوجوان بیوروکریٹ سے لیکر حاکمِ وقت کے ساتھ بیٹھے شاہی افسر تک، گلی کے کونسلر سے لے کر سیاست کی بلندیوں کو چھوتے اعلیٰ لیڈر تک، چھوٹے سے اخبار سے منسلک صحافی سے لے کر میڈیا ہاؤس کے مالک تک، سڑک کے کنارے لگی ریڑھی والے سے لے کر ڈیپارٹمنٹل سٹور کے مالک تک، محلے میں لگی چکی پر پسائی کرنے والے سے لے کر کارخانے کے سیٹھ تک، گاؤں کے مزارع سے لے کرایکڑوں کے مالک زمیندار تک، چوک میں بیٹھے کمشین ایجنٹ سے لیکر بڑے سرمایہ کار اور تاجر تک، سیکند ہینڈ رکشے کے استاد سے لیکر ایئر لائن کے چیئرمین تک، پلمبر، ترکھان، لوہار، معمار سے لے کر عالی شان پلازوں اور شاپنگ مالوں کے ٹھیکیدار تک، جھونپڑی اور کچے مکان میں رہنے والے سے لے کر عالی شان بنگلوں کے باسیوں تک ۔۔ہر سطح پر دھوکے باز اور لوٹ مار کرنے والے مل جائیں گے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی پہنچ اور اپنی اپنی طاقت کے مطابق لوٹتا ہے۔لوٹ مار کایہ سلسلہ اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک آتا ہے۔ یا پھر کہنے دیں کہ نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک جاتا ہے کیونکہ اوپر والے وہی ہیں جو نیچے والے ہیں ۔

Bell Button Website Jassaraftab

Read Previous

فیس بک پر تنقید ۔۔ طلباء یونیورسٹی سے فارغ 

Read Next

ویٹرنری ڈاکٹر پر تشدد اور ضلع کے اعلیٰ افسروں کی بے حسی 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Share Link Please, Don't try to copy. Follow our Facebook Page